تحریر : انجم صحرائی
تمام تر تحفظات کے باوجود ماننا پڑتا ہے کہ پرویز مشرف دور میں متعارف کرایا جانے والا لو کل گورٹمنٹ سسٹم ملکی تا ریخ میںگراس روٹ لیول پر حکومتی اختیارات منتقل کر نے کی ایک زبر دست اور منفرد کو شش تھی لیکن جیسا کہ ہمیشہ ہو تا چلا آیا ہے کہ اس ملک کی اشرافیہ بیوروکریسی کے سا تھ مل کر حکومت کی طرف سے کئے گئے عوام دوست اقدامات کو ہا ئی جیک کر کے اس کے غبارے سے ہوا نکال دیتی ہے کچھ ایسا ہی اس لو کل گورٹمنٹ سسٹم کے سا تھ ہوا ۔یہ سسٹم بھی گراس روٹ لیول پر اختیارات منتقل کر نے کی بجا ئے ملک میں مو جود انہی پیشہ ور سیاسی شاہسواروں کی حیات نو کا سسب بن گیا جن کی طویل سیاسی خدمات کی بو ئی ہو ئی فصل کاٹ رہے ہیں ۔ حسب روایت اس سسٹم کو بھی حکمرا نوں نے اپنی حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر بنا نے کے لئے استعمال کیا میں نہیں سمجھ سکا کہ آخر کیوں اور کیسے ہر حکمران یہ یقین کر لیتا ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام کی بجا ئے صرف دو فیصد سرمایہ دار ، جا گیردار اور روائتی اقتدار پر ست اشرا فیہ ہی اس کے اقتدار کی کر سی کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔
سو اس تناظر میں پرویز مشرف دور میں رائج کیے جانے والا لو کل گوٹمنٹ سسٹم بھی سماج کے اسی طبقے کو مضبوط بنا نے کا سبب بنا ۔شا ید لوکل گورٹمنٹ سسٹم بنا نے والوں نے انتہا ئی اعلی سطح پر یہ غیر تحریری فیصلہ کیا ہوا تھا کہ حکو متی حلیف اس نظام کے کلیدی عہدوں کے لئے اپنے من پسند مگر با اثر افراد کو نا مزد کریں گے اسی فار مو لے کے تحت نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پا کستان میں ایسے سیا سی خانوادوں کے افراد کو ضلع اور تحصیل کو نسلوں کی نظامت اور نا ئب نظامت کے لئے نا مزد کیا گیا جو نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ سماجی سطح پر بھی انتہائی اثرو رسوخ کے حامل ہوں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں گراس روٹ لیول سے نئی سیاسی قیادت سا منے آ نے کی بجا ئے انہی خاندانوں کے جاہ جلال میں پہلے سے زیادہ اضا فہ ہوا جو صدیوں سے اقتدار کی غلام گردشوں میں پا ئے جا تے ہیں۔لیہ میں بھی یہی ہوا جزل پر ویز مشرف کے سیا سی حلیفوں نے بلد یا تی اداروں کے جاہ جلال کے ذر یعے عوام کو مطیع و فر ما نبردار بنا نے کے لئے معروف سیاسی خاندانوں کے چشم و چراغوں کو اپنی آ شیر باد سے نوازا ۔جس سے ضلع لیہ میں گراس روٹ لیول کی سیاست میں سیہڑ ، جکھڑ ، تھند ، ، سید ، جوتہ اور مگسی خاندانوں کی گرفت زیادہ مضبوط ہو ئی یہاں
یہ بات قا بل ذکر ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں کا میاب ہو نے والے اکثر نا ظمین کا تعلق مختلف سیا سی جما عتوںسے تھا اور اکثریت حکومت مخالف سیاسی جماعتوں سے تھی لیکن بلد یا تی انتخابات غیر جما عتی بنیادوں پر ہو نے کی و جہ سے انہی لو گوں نے سب سے زیادہ فا ئدہ اٹھایا پر ویز مشرف دور میں ہو نے والے پہلے بلد یا تی انتخابات میںمنتخب ہو نے والے سردار شہاب الدین سیہڑ کا سیا سی تعلق پی پی پی سے ، چوبارہ تحصیل کے ناظم سردار قیصر مگسی مسلم لیگ (ن ) سے تھا مگر یہ سب بحیثیت نا ظمین پر ویز مشرف حکومت کی حلیف جماعت مسلم لیگ (ق ) کے وزیر اعلی پنجاب پر ویز الہی کے بھی بہت زیا دہ قریب تھے ۔ ۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ لیہ کی ضلعی نظا مت کے لئے سیہڑ اور جکھڑ خاندان میں کا نٹے کا مقا بلہ تھا ، دونوں امیدواروں کا سیا سی تعلق پی پی پی سے تھا لیکن ملک نیاز جکھڑ کے مقا بلہ میں شہاب الدین سیہڑ کو کچھ نمبر زیادہ حا صل تھے وہ یہ کہ ان کے کزن سردار بہادر خان سیہڑجو پی پی پی کے رکن قو می اسمبلی بھی رہے تھے پی پی پی چھوڑ کر مسلم لیگ (ق )میں شا مل ہو چکے تھے جس کی وجہ سے پرویز مشرف حکو مت کی ہمدردیاں شہاب خان کو حا صل تھیں اور ایک اور بات جو شہاب خان کو ملک نیاز جکھڑ پر سبقت دے رہی تھی وہ تھا ان کا علا قائی گروپ ۔ سیہڑ تھند گروپ کے مقا بلہ میں فیض الحسن سواگ جو مسلم لیگ ن کے سا بق ایم این اے رہے تھے کی ہمدریاں ملک نیاز کے سا تھ تھیں اور شا ئد ان ہمدریوں نے بھی ملک نیاز کے نمبر کم کر دیئے تھے ایسے نمبرز کی گیم میںہم بھی ضلع کو نسل کی لیبر نششت پر امیدوار تھے
ہمارا نہ تو کو ئی علا قائی گروپ تھا اور نہ ہی ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی آ شیر باد حاصل تھی اور نہ ہی ہمارے اتنے وسا ئل تھے کہ ہم پیسے کے زور پر ووٹ خریدتے ایسے حالات میں ہم نے سو چا کہ ایک خط کے ذریعے کو نسلرز تک اپنا پیغام پہچایا جا ئے سو ہم نے کو نسلرز کے نام ایک کھلا خط تحریر کیا جسے با ضابطہ ایک ہینڈ بل کی شکل میں شا ئع کرایا گیا یہ ایک جذ با تی تحریر تھی جس میں عام آ دمی کی مشکلات ، ان کی وجوہات اور اسباب اور تدارک کے طریقہ کار پر بات کی گئی تھی خط میں ہم نے لکھا کہ ضلع کو نسل کے بلدیاتی انتخابات میں اگر آپ نے مجھے ووٹ دیا تو شا ئد میں آپ کے مسائل کے حوالہ سے کچھ زیادہ نہ کر پا ئوں لیکن میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ میں بحیثیت کو نسلر چپ کا روزہ نہیں رکھوں گا میں آپ کی طرف سے نشا ندھی کئے جانے والے ہر اجتماعی اور انفرادی مسئلہ پر اتنا شور مچا ئوں گا کہ ارباب اقتدار آپ کی طرف دیکھنے اور آپ کی آواز سننے پر مجبور ہو جا ئیں گے میں نے یہ خط اپنے دستخظ کے سا تھ ضلع لیہ کے کم و بیش ایک ہزار منتخب کو نسلرز کو بذریعہ ڈاک ارسال کیا ۔ مجھے بڑی حیرانی ہو ئی جب مجھے اس خط کے جواب میں بڑے حو صلہ افزا جوابات ملے ۔ اس سلسلہ میں مجھے سب سے پہلے یو نین کو نسل شوکت آباد کے ملک عبد العزیز جگ کی طرف سے اظہار یکجہتی کا پیغام مو صول ہوا جگ صاحب نے ہمارے خط کا شکریہ ادا کرتے ہو ئے ہمیں اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔
اسی طرح شاہ پور دورٹہ کے نو جوان لیبر کو نسلزسید صابر حسین شاہ نے ہمیں شاہ پور آ نے کی دعوت دی ہم وہاں گئے تو انہوں نے اپنے گھر ہمارے اعزاز میں ایک بھر پور دعوت کا اہتمام کیا جس میں یو نین کو نسل کے دیگر ممبران بھی شریک ہو ئے ۔اسی طرح میرے آ با ئی علا قے کوٹ سلطان ، پہاڑ پور اور جمن شاہ یو نین کو نسل کے بہت سے ممبران کی طرف سے بھی ہما ری حمایت کا اعلان کیا گیا ۔ یو نین کو نسل جمن شاہ کے ناظم سید افتخار شاہ گیلا نی نے تو ہمیں اپنے ساتھ لے کر اپنی یو نین کو نسل کے تمام کو نسلرز سے فردا فرداملاقات بھی کرائی اورہمارے لئے ووٹ بھی ما نگے اسی طرح چو بارہ جماعت اسلامی کے دوست مشتاق گو رایہ بھی ہمارے میزبان بنے اور انہوں نے بھی ہماری بھرپور حو صلہ افزائی کی ۔ ان انتخابات میں کروڑ کی معروف سیاسی اور سما جی شخصیت میاں مشتاق لا ہوری ، سینئر صحا فی حافظ خلیل ، ملک مقبول الہی ، معروف قا نون دان ملک غلام شبیر کھو کھر ، رشید احمد گورمانی ایڈ وو کیٹ ، کوٹ سلطان کے ڈاکٹر خلیل چوہدری اور افتخار بلوچ لیبرکو نسلر کی محبتیں بھی ہماری شریک سفر رہیں ۔ میری پوری الیکشن مہم محکمہ ڈاک کی مر ہون منت تھی پو لنگ سے چند دن پہلے ہمارے ایک دوست ملک محبوب اعوان نے اصرار کیا کہ ہمیں کچھ یو نین کو نسلوں میں جا کر فردا فردا ووٹرز کو نسلرز سے را بطہ کر نا چا ہئیے ۔ میں نے بجٹ نہ ہو نے کا عذر پیش کیا تو وہ بو لے گاڑی میری طرف سے وقت تم نکا لو۔
سو یوں ہمیں ایک گاڑی دستیاب ہو گئی اور ہم نے ڈرائیور اللہ رکھا کی راہنما ئی میں ووٹرز کی تلاش پرا جیکٹ پر کام شروع کر دیا لیکن برا ہو وقت کا کہ جو گزر چکا تھاہم نے ایک دن میں کئی چکوک اور دیہاتوں میں میلوں سفر کیا لیکن ہم کسی بھی ووٹرز کی زیارت نہ کر سکے ہوا یہ تھا کہ سبھی ووٹرز کو ضلعی نظامت کے امیدواروں نے اپنا اپنامہمان بنا رکھا تھا چند دوستوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم ان ڈیروں پہ جہاں کو نسلرز صاحبان بطور مہمان مقیم تھے جا کر مل لیں لیکن ہماری طبیعت نے بغیر بلائے ان ڈیروں کا مہمان بنناگوارا نہ کیا پو لنگ کے دن ضلع کو نسل کے باہر ہم بھی اپنے انتخابی کیمپ میں اکیلے ہی ووٹرز کو خوش آ مدید کہنے کے لئے مو جود تھے ۔ پو لنگ کا عمل شروع ہو نے کے بعد دوسرے امیدواروں کی طرح ہم بھی شہر کے دیگر پو لنگ سٹیشن کا چکر لگانے کے لئے اپنی با ئیک پر نکلے تو ہسپتال لنک علی روڈ پر واقع پبلک ہیلتھ کے آ فس میں قائم پو لنگ سٹیشن پر ہماری ملاقات ایک ایسی نو جوان شخصیت سے ہو ئی جن کا تعلق شا ئد کسی سرکاری ایجنسی سے تھا اور وہ ہو نے والے بلدیاتی انتخابات کی مانیٹرننگ کر رہے تھے تعارف کے دوران جب انہیں یہ پتہ چلا کہ چشم بد دور ہم بھی ایک امیدوار ہیں اور ضلع کونسل کی لیبر نششت پر انتخاب لڑ رہے ہیں تو بو لے آپ کا انتخابی نشان انگو ر کا گچھ ہے نا ؟ میں نے کہا جی ۔ فرمایا آپ کی پوزیشن بہتر نظر آ رہی ہے ہے آپ جیت بھی سکتے ہیں۔
میں نے مسکراتے ہو ئے کہا نہیں صاحب میری پوزیشن جتنی بھی بہتر ہو جیت اپنے مقدر میں نہیں میں جیت نہیں سکتا میرا جواب سن کرر انہوں نے بڑی حیران نظروں سے ہمیں دیکھا اور بو لے وہ کیوں ؟ میں نے عرض کیا اس کیوں کا جواب قدرے تفصیل طلب ہے کیا آپ کے پاس وقت ہے ؟ کہنے لگے ہاں بتا ئیں میں انہیں سا تھ لیا اور ہم دو نوںپو لنگ سٹیشن کے سامنے چوہدری محمد صادق کے اظہار لمیٹڈ کے دفتر میں جا بیٹھے ، چا ئے کا گھونٹ لیتے ہو ئے انہوں نے استہفا میہ نظروں سے ہمیں دیکھا تو میں نے اپنی بات مکمل کرتے ہو ئے کہا کہ اس کی وجہ پو لنگ سٹاف ہے ۔ یہ پو لنگ عملہ جن اسا تذہ ، جن پٹواریوں اور جن کلر کوں پر مشتمل ہے ان ساروں کی ملاز متیں ما ضی میں بر سر اقتدار رہنے والے ممبران اسمبلی کی مر ہون منت ہیں ایسے میں بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ نمک حلا لی نہ کریں ہو گا
یہ جو نہی مجھے کاسٹ ہو نے والے ووٹ ایک خاص تعداد سے بڑحین گے اپنے آ قائوں کے ساتھ ان کا جذ بہ وفاداری تا ئو کھا ئے گا اور پھر میرے ساتھ ہاتھ ہو گا سوال ہوا کیسے ؟ وہ ایسے کہ پھر میرے حق میں ڈالے گئے ووٹ ٹیکنیکل بنیادوں پر کینسل ہو نا شروع ہو جا ئیں گے اور یوں رزلٹ میں میں ہار جا ئوں گا ۔ اور ہوا بھی یہی ضلع کو نسل پو لنگ سٹیشن پر میرا پہلا ووٹ پجاس ووٹ کے بعد کینسل ہوا اعتراض یہ تھا کہ ووٹر نے اس ووٹ کی پر چی کو صحیح طور پر تہہ نہیں کیا تھا میں نے ووٹ کینسل کئے جانے کے خلاف احتجاج کیا
تو ہماری آواز کسی نے نہ سنی پھر ایک لمبی لسٹ تھی ووٹوں کی جو کینسل ہو ئے جب ہم نے اپنی یہ درگت بنتی دیکھی تو یہ کہتے ہوئے کہ بس بہت ہو گیا اپنا صا فہ کند ھے پڑ ڈالا اور باہر نکل آئے بعد میں پتہ چلا کہ انگور کے گچھے کو کاسٹ کئے گئے کینسل ووٹوں کی تعداد اتنی خا صی تھی کہ اگر یہ ووٹ کینسل نہ ہو ئے ہو تے تو شا ئد ہم بھی آج سا بق ممبر ضلع کو نسل ہو تے ۔۔۔با قی آئندہ قسط میں
تحریر : انجم صحرائی