تحریر : انجینئر افتخار چودھری
ابھی کل ہی ہم نائین الیون کی پندھرویں برسی منا کر ہٹے ہیں شکر ہے زنجیر زنی نہیں کی ورنہ ہم گرم پانی سے ٹکور کر رہے ہوتے۔ پندرہ سال پہلے دنیا کا سب سے بڑا فراڈ ڈرامہ رچایا گیا۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے ساماکو جو اوڈی واکس ویگن اور پورش کی ایجینسی ہے میں وہاں اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف تھا شام کے وقت فلسطینی یحیی، انور اور چند دیگر ٹیکنیشنز نے شور مچا دیا میں فلور پر پہنچا تو علم ہوا کہ امریکہ میں دو عمارتوں پر حملہ کر دیا گیا ہے اور مسلمان عملہ خوشی و مسرت کا اظہار کر رہا ہے۔
ایسے میں مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک فلپینی ٹیکنیشن نے مجھ سے رازدارانہ لہجے میں کہا مسٹر افتخار یہ سب کچھ اچھا نہیں ہوا یہ آگے چل کر بڑے مسائل پیدا کرے گا۔نوربی نامی فلیپینی مکینک میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا ۔ ان دو عمارتوں کے بارے میں حافظ سعید نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ دو ناکام بلڈنگوں کے انہدام سے ساری دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنا گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔پوری دنیا سے آواز بلند کی جا رہی ہے کہ یہ فراڈ تھا۔لوگ اس پر حیران ہیں کہ جہازوں کے مختلف زاویوں کے ٹکرانے کے عمل کو کس قدر خوبصورتی سے فلمایا گیا۔اور اتنی بڑی عمارتوں کا زمین میں افقا دھنس جانا ۔سریے سے بنی ان عمارتوں کو چند جہاز اور ان کا فیول کیسے تباہ کر سکتا ہے؟اس پر بڑی فلمیں تحقیقی پیپرز لکھے جا چکے ہیں۔
مگر اس جھوٹ کو جھوٹ نہیں مانا جا رہا۔بلکہ اسے گوئبلز تھیوری کے حوالے کرکے دنیا میں بطور سچ منوا لیا گیا ہے۔موم بتی مافیا بھی تخلیق کیا گیا۔میڈیا پر بھی نوٹ نچھاور ہوئے اور اس کا موڈ بنا۔اخبارات،اینکرز سب دیہاڑی دار بن گئے جو استعمال نہ ہوئے دقیانوس جماعتیے قرار دئے گئے۔ پاکستان فرسٹ کے موجد جناب مشرف امریکہ کے سامنے بیٹھے نہیں لیٹ گئے اور ہم اس پرائی جنگ میں اس قدر الجھ گئے کہ لگتا ایسا ہے کہ امریکہ ہم ہی تھے۔اب تو اس کو پرائی جنگ کہنا بھی ایک پاپ عظیم ہے۔لوگ آپ کا گلہ پکڑ لیتے ہیں۔اور تو اور بڑے بڑے لوگ جو اس پر احتجاج کیا کرتے تھے خاموش ہو گئے۔
کل جنرل عاصم باجوہ صاحب فرما رہے تھے کہ دنیا ہماری قربانیوں کو سمجھے ہم نے ہزاروں جانیں دی ہیں اور ١٠٧ ارب ڈالر کا نقصان بھی برداشت کیا ہے۔جنرل صاحب پیارے آدمی ہیں نرم لہجے اور روئی جیسے نرم ہاتھوں والے اس جاٹ جرنیل کو علم ہے کہ یہ سودا ہم نے نقد خریدا ہے۔اس کی قیمت ہم نے اپنے بیٹوں کی شکل میں ادا کی ہے۔بیوائیں شہدا کے یتیم بچے اور گلی گلی لڑائی محفوظ بارڈروں کو غیر محفوظ اپنی مفت میں لڑنے والی آرمی جو افغانستان میں انڈیا کے کان پکڑوا رہی تھی سب کچھ دے دیا۔
ہارے ہوئے جواری کی طرح ہم اس مارکیٹ سے کچھے میں نکلے بدن کے لباس تک دے کر۔ اور کیا یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ہماری جان چھوٹ گئی۔نہیں میرے وطن کے لوگو ابھی نہیں ابھی تو ہماری نسلوں نے وہ ادھار بھی چکانے ہیں جو ایک ڈکٹیٹر سگار کا سوٹا لگاتے ہوئے لے لئے تھے۔اب تو وہ لوگ بھی بھسم ہو کر رہ گئے ہیں جو اسے صلیبی جنگ گردانتے تھے۔یہ صلیبی جنگ ہے اسے میں نے نام نہیں دیا اور نہ ہی کسی اوریا مقبول جان نے اسے نام دیا خود امریکی صدر جارج بش نے۔دنیا اتنی بھی بھولی نہیں جو ٹونی بلیئر کے اس بیان کو ہضم کر لے کہ ہم نے عراق میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کو سمجھنے میں غلطی کی۔ایسے شخص کو تو ایک ملین بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے پر پنکھے سے لٹک کر خود کشی کر لینی چاہئے تھی۔یہ کوئی بات ہے آئی ایم سوری کہہ کر ملین لوگوں کے قاتل نکل جاتے ہیں۔
کسی نے سچ کہا تھا کہ متوسط الجنس لوگوں کا گائوں مخنوط لوٹا کرتے ہیں۔
جتنا موت سے ڈرو گئے اتنی تمہارے پیچھے بھاگے گی۔مر تو جنرل نیازی بھی گیا تھا جو ہارنے کے بعد جنرل اروڑہ کو اپنا پستول دیتے ہوئے کہہ رہا تھا میں کیسے لڑا؟تاریخ ایسے لوگوں کو جوتوں کے تلووں پر لکھتی ہے۔ تاریخ تو آج میجر عزیز بھٹی کو یاد کرتی ہے جو آج ہی کے دن اس دنیا سے لڑتے لڑتے اس دنیا میں چلے گئے ۔ہم نے کیا کیا جن کو ماں جائے کہتے رہے انہیں کنٹینروں میںبند کر کے موت کے گھاٹ اتارا۔اور اسلحے کے کنٹینر غائب کرتے رہے انہیں اسمبلیوں میں بھجوایا۔
نائین الیون کل تھا چلا گیا مگر کیا ہم ان پندرہ برسوں میں اس کے کلچ سے شکنجے سے نکل سکے نہیں۔ اس اہم دن میں دنیا کیا سے کیا ہو گئی۔ہم کسی وقت ذکر کرتے ہیں زمانہ قبل از مسیح اور بعد از مسیح تاریخیں بدل کے اسے زمانہ قبل از نائن الیون اور بعد از نائن الیون کہنا شروع کیجئے۔ایک القائدہ نامی تنظیم گھڑی گئی وہ کوئی تو بتا دے کہ نائن الیون سے پہلے کاغذوں میں تھی اور یہ بھی بتائیے کہ اب وہ کدھر ہے۔اسے ختم کرنے کے لئے ایک اور ٹوپی ڈرامی گھڑا گیا۔جسے کہا گیا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن پکڑا گیا اور پھر مار گیا اور پھر اس کی لاش کو سمندر میں دبا دیا گیا۔
اس دنیا میں اس سے بڑا لطیفہ بھی کوئی ہو سکتا ہے۔ جو بندوق اٹھانے پر اسی اسی سال کی سزا دیتے ہیں وہ اپنے قاتل کو یوں خاموشی سے مار دیں گے۔یہ اسی طرح ہی ہے کہ فلم بن رہی ہوتی ہے ہیرو کی فلمساز سے پیسے دینے لینے پر لڑائی ہو جاتی ہے تو ہدائت کار اس کا ایک سین تخلیق کرتا ہے اسے ایکسیڈنٹ میں مروا دیا جاتا ہے اور فلم میں نئے ہیرو کی انٹری ہوتی ہے۔ہمارا اس نائن الیون ڈرامے میں رونا پیٹنا اس میراثی کی طرح ہے جو چودھریوں کی شادی میں چودھریوں سے زیادہ بین کرتا ہے۔
بس اسے مقدر کا لکھا سمجھ کر برداشت کر لیں۔مار کھانے کے بعد کہتے جائیں ہور مارو!جنرل صاحب کٹ کھانے کے پیسے نہیں ملتے ١٠٧ ارب ڈالر ہوں یا ٢٧٠٠ ارب ڈالر مار بھی کھانی ہے اور مفت میں کھانی ہے۔مختصرا اس کا حل بتا دوں جنرل مشرف ڈاکٹرائن کو چھوڑیں جنرل ضیاء اپنائیں۔فائدہ اسی پھکی سے ہو گا۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری