counter easy hit

سیکیورٹی تحفظات

Security

Security

تحریر: راشد رفیق بھٹہ
نائن الیون دنیا کی تاریخ کا ایک المناک واقع تھا۔ اس حادثہ میں دو ہزار نو سو چھیانویں افراد موت کا شکار ہوئے۔ یہ واقع سیکیورٹی کے حوالے سے امریکہ کے لیے ایک بہت بڑا چلینج تھا۔ اس واقع کے بعد امریکہ نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے وسیع پیمانے پر بہت سے اقدامات کیے۔ امریکی حکومت نے دیپاڑنمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں بائیس مختلف ایجنسیز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا گیا۔ جس کا مقصد صرف اور صرف امریکہ کے لوگوں کو دہشتگردوں اور دہشتگرد تنظموں کی کاروائیوں سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔اِن ایجنسیوں نے مل کر ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپاڑنمنٹ کو مضبوط بنایا۔ اس کے بعد امریکہ میں دہشتگردی کا کوئی بڑا واقع رونما نہیں ہوا۔ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔جس میں پاک آرمی کے جوان دہشتگردوں کے خلاف سینہ پلائی دیوار بن کے کھڑے ہیں۔اس آپریشن میں تین ہزار کے قریب دہشتگرد مارے جا چکے ہیں۔ اور جنوبی وزیرستان اور قبائلی علاقوں کا ایک بڑا حصہ اِن دہشتگردوں سے صاف ہو چکا ہے۔آپریشن ضرب عضب میں پاک آرمی کی کارکردگی قابلِ تحسین ہے اور پاک فوج پرُ عزم ہے۔کہ ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ کر کے ہی دم لے گئے۔

سانحہ پشاور بھی آپریشن ضرب عضب کے ردِعمل میں ہوا۔تحریک طالبان نے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کیا۔اِس حملے کے نتیجہ میں ایک سو پنتالیس افراد جس میں ایک سو بتیس بچے شامل تھے مارے گئے۔ اس واقع میں دہشتگردوں نے ظلم اور بربریت کی انتہا کر دی۔ دہشتگردوں نے معصوم بچوں کو ٹارگٹ بنایا۔ اس افسوس ناک واقع پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ یہ پاکستانی تاریخ کا ایک المناک واقع تھا۔اس اندوناک واقع کے بعد پاک فوج نے اپنی کاروائیاں مزید تیز کر دی۔ ابھی سانحہ پشاور کا غم تازہ تھا کہ اس دوران شکار پور میں دہشتگردی کی ایک اور بڑی کاروائی ہوئی۔دہشتگردوں نے شکار پور میں امام بارگاہ پر خود کش حملہ کیا اس واقع میں اکسٹھ افراد مارے گئے۔ ابھی کچھ دن پہلے تحریک طالبان نے قلعہ گجر سنگھ پولیس لائن لاہور میں خود کش دھماکہ کیا جس کے نتیجہ میں آٹھ افراد مارے گئے۔اور درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ ایک اور واقع قصر سکنہ امام بارگاہ راولپنڈی میں پیش آیا۔ جس میں تین افراد مارے گئے۔

سیکیورٹی کی اس ابتر صورت حال کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ پاکستان میں وی آئی پی کلچر اس طرح رچ بس چکا ہے۔ کہ اب اس سے جان چھوڑانا مشکل ہو چکا ہے۔ پولیس کی ایک بھاری نفری حکمرانوں کے محلات کی حفاظت کرنے اور سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو تحفظ دینے پر مامور ہے۔ایسے حالات میں پولیس ایک عام آدمی کو کیا تحفظ فراہم کرے گئی۔ تھانہ سسٹم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ذاتی پسندیدگی کی بجائے میڑٹ پر بھرتیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ ان دہشتگردی کے واقعات سے بچنے کے لیے ملک میں موجود تمام مدارس کو رجسٹرڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مدارس کو اسلحے سے پاک کرنا ہو گا۔ اور ان پر کڑی سے کڑی نظر رکھنا ہو گئی۔ تاکہ اِن مدارس کے ذریعے کوئی دہشتگرد کاروائی نہ کی جا سکے۔ ملک میں موجود وہ عناصر جو ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہے اور اِن دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہے۔ اُن عناصر کو بھی سخت سزائیں دینا ہو گی۔ ان دہشت گرد کاروائیوں میں غیر ملکی باشندوں کے ملوث ہونے کے ثبوت پائے گئے ہے۔ملک کو ان غیر ملکی باشندوں اور افغانیوں سے پاک کرنا ہو گاحکومت کو ایک طویل مدتی جامعہ منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔

ہر دہشتگرد کاروائی کے بعد جئے۔آئی۔ٹی(JIT) بنا دینا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ حکومت کو اپنی ترجیحات کاتعین کرنا ہو گا۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آپس میں ہم آہنگی پیدا کرناہو گی۔نیشنل ایکشن پلان کو کس طرح لگائو کیا جائے اس کے لیے ایک ضابطہ کار بنانا ہو گا۔ اب ایک پریس ریلیز جاری کر دینے سے بات نہیں بنے گئی۔حکمرانوں کو لوگوں کے غم میں شریک ہونا پڑے گا۔اِن معصوموں کے جنازوں کو کندھا دینا ہو گا۔متاثرہ خاندانوں کی داد رسی کرنا ہو گئی۔حکمرانوں کو اپنے روئیے سے عوام کو باہمی اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دینا ہوگا۔تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بھلا کر اِس دہشتگردی کے خلاف اعلانِ جنگ کرنا ہو گا۔اور اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا۔تاکہ ملک میں موجود اِس افراتفری اور ہنگامی صوتحال پر قابو پایا جا سکے۔

Rashid Rafique Bhutta

Rashid Rafique Bhutta

تحریر: راشد رفیق بھٹہ