ہماری ٹی وی چینلز کی دنیا پرنٹ میڈیا اور احباب کی گپ شپ محفلوں میں سیاست بازی الزام تراشی تو خیر سکہ رائج الوقت ہے اور عرصہ دراز سے ہے لیکن اس ماتم کا تسلسل بھی ہے کہ غربت و بیروزگاری میں بھی مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔
مہنگائی و بیروزگاری کا جائزہ لیں تو ایک بات کو ہم مکمل طور پر نظر انداز کرتے پائے جاتے ہیں کہ جیسے جیسے وقت گزرتا بلکہ چھلانگیں لگاتا اور رفتار پکڑتا جا رہا ہے مہینوں کی مسافت گھنٹوں اور گھنٹوں کی سکینڈوں میں طے ہوتی نظر آ رہی ہے وہیں کھانے پینے‘ پہننے پہنانے‘ آنے جانے‘ رہنے سہنے‘ ملنے برتنے دیکھنے دکھانے‘ پڑھنے پڑھانے‘ ہنسنے ہنسانے‘ بولنے بلانے‘ اڑنے اڑانے‘ کھیلنے کھلانے سونے جگانے‘ پینے پلانے‘ بھاگنے بھگانے‘ لوٹنے لٹانے غرضیکہ حیلے بہانے کی بھی اب قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
بہ الفاظ دیگر ضروریات زندگی یا سامان تعیش میں بے پناہ اضافے نے گرانی نایابی و نارسائی کے معانی و مطلب بدل کر رکھ دیے ہیں۔ شاید اس منطق کو سمجھنے میں کسی کو مشکل پیش آئے لہٰذا اس کی مشکل رفع کرنے کی غرض سے ضرورت اور آسائش میں فرق واضع کرتا ہوا بابا بلھے شاہ کے کلام میں آسان اور سیدھا سادا شعری جواب مل جائے گا
رکھی سکھی کھا تے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی مت للچاؤ جی
ایک تبدیلی جس نے غربت و افلاس کا ڈھنڈ ھورا پیٹنے والوں کی نظروں میں دھول جھونکی ہے یہ ہے کہ لوگوں میں سادگی اور قناعت کا جذبہ مفقود کر دیا ہے اور ہر کوئی اپنے سے اوپر والے کی نقل اور تقلید کرنے پر مصر ہے چاہے کسی بھی ناجائز ذریعے کو اختیار کرنا پڑے اور اوپر والے یعنی امیر کبیر کو تو روز حشر کا ڈر ہے نہ عاقبت کی پروا اور بابا فرید کے مذکورہ شعر کا موجودہ دور میں تجزیہ یوں ہے کہ غریب آدمی تو یقیناً چپڑی اور روٹی کے لیے للچاتا پایا جاتا ہے لیکن ادھر فلٹی رچ کی صحت ہی اجازت نہیں دیتی کہ وہ لذیذ مہنگے پکوان اور چپڑے پراٹھے کھا سکے۔
ہمارے پالیسی سازوں کو معلوم ہی نہیں بلکہ قحط شعور ہے اس موٹو کا جو میری درسگاہ مرے کالج کی پیشانی پر لکھا ہوتا تھا کہ فرسٹ تھنک فرسٹ یعنی جو کام پہلے کرنے کا ہے اسے سب سے پہلے نمٹاؤ۔ آبادی کی فورس ہی کو لے لیں۔ ایک طاقتور مرد دس کمزور نحیف اور بیمار افراد پر بھاری ہوتا ہے۔ ایک زیرک عقلمند تعلیم یافتہ بچہ دس نالائق جاہل بے ہنر جوانوں سے بہتر اور کار آمد ہوتا ہے۔
ایک عام سی ذاتی ہموار سڑک مہنگی فلائی اوور سے جو قرض لے کر بنائی گئی ہو ملک کے لیے گراں قدر ہو سکتی ہے۔ کھلی موٹرویز انڈر پاسز اور اورنج لائن جو ملک کو گروی رکھ کر بنیں ان کے مقابلے میں ایک پلے گراؤنڈ اسکول اور جدید اسپتال بدر جہا اہمیت کے حامل ہوں گے۔ یعنی شعر پڑھئے کہ
قرض کی پیتے تھے مے اور یہ کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چلا ہے کہ عدلیہ کے پاس شریف فیملی کے دیانت و امانت سے متعلق معاملات فیصلہ طلب ہیں‘ ان پر لگے الزامات میں کتنی سچائی ہے اور کتنی مبالغہ آرائی ان پر حتمی صورت حال ابھی تک واضع نہیں لیکن امکان ہے کہ اگلے چھ ماہ یا اس سے کچھ زیادہ مدت میں حقائق طشت ازبام ہو جائیں گے۔اکثریت کنفیوژڈ ہے۔ دراصل شریف برادران وہ اکیلی فیملی ہے جن کی ملک پر حکمرانی کا عرصہ طویل ترین ہے۔ نواز شریف تین بار وزیراعظم اور دو بار وزیراعلیٰ صوبہ پنجاب رہے۔ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کی تیسری ٹرم چل رہی ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ غلام حیدر وائیں بھی نام کے وزیراعلیٰ تھے پس پردہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو شہباز شریف ہی چلا رہے تھے۔ یوں ہر دو برادران کی تین جمع دو جمع تین جمع ایک کو اکٹھا کریں تو یہ نو ٹرمز بنتی ہیں۔ اس طویل عرصہ حکمرانی کے بعد پہلی بار ہوا ہے کہ ان کی پوری فیملی کے ستارے گردش میں آئے ہیں۔ انسانی فطرت میں ہے کہ وہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد کسی حالت میں دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہوتا اور ان کے مصاحب تو جن کی اپنی بقا ان حکمرانوں کے دم سے ہوتی ہے اقتدار بچانے کے لیے جان لڑا دیتے ہیں۔
جس موضوع سے اس تحریر کی ابتدا کی گئی تھی اس پر بہت کچھ لکھنے کا ارادہ تھا اور لکھا جا بھی سکتا ہے۔ معیشت خواندگی‘ ہنر مندی‘ صحت‘ دیانت و امانت اور فن حکمرانی کے علاوہ پاپولیشن کنٹرول یہ وہ معاملات ہیں جن پر مکالمہ ہی نہیں عمل اور حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن معلوم ہوتا ہے وہ وقت بہت دور نہیں جب ان پر کھل کر اور دو ٹوک بات ہو سکے گی۔ لیکن میاں برادران بھی کیا کریں ایک تو یہ کہ ؎ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی دوسرے نو باریاں لینے کے بعد مزید نو باریاں بلکہ تادم مرگ باریوں کی خواہش ایسی ہے کہ کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی لیکن نو باریوں کے ساتھ نو پٹاریاں بھی تو کھلیں گی۔ اور لوگ منتظر ہیں کہ دیکھیں پٹاریوں میں سے نکلتا کیا ہے۔