بدھ کی شام قومی اسمبلی کے فلور پر جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر نوے کی دہائی کے چند واقعات آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔ جب سابق صدر غلام اسحاق خان نے پانچ اگست 1990ء کو پیپلز پارٹی کی حکومت کو ڈس مس کیا اور قومی اسمبلی کو توڑا تو اس کے بعد اکتوبر 1990ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو اکثریت ملی۔ پیپلز پارٹی کو صرف پنتالیس نشستیں مل سکیں۔ پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کی قیادت میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ گئی۔ غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں نو ریفرنس بھی عدالتوں میں دائر کئے۔ یہ پاکستان کی سیاست کے لئے ایک پرآشوب دور تھا۔ جنرل ضیاء نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا پانچ جولائی 1977ء کو تختہ الٹ کر اس کے بانی اور ملک کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں پھانسی دے دی تھی۔ گیارہ برس کے بعد جب پارلیمانی جمہوریت بحال ہوئی تو بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ وہ وزیراعظم بن تو گئیں لیکن انہیں پاکستان کی فوج سول بیورو کریسی اور اپوزیش نے چلنے نہیں دیا۔ 1990ء میں بننے والی بے نظیر حکومت کو صرف اٹھارہ ماہ کے بعد برطرف کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے 1990ء کے انتخابات کو ’’ریگڈ الیکشن‘‘دھاندلی الیکشن قراردیا تھا۔ ان انتخابات کے بارے میں بے نظیر بھٹو نے ایک کتابچہ بھی شائع کر دیا تھا جس کا عنوان تھا ’’الیکشن کس طرح چوری کیا گیا. اس پس منظر میں جب اکتوبر 1990ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی اور صدرغلام اسحاق خان پارلیمانی سال پورا ہونے پر اس سے خطاب کرنے آئے تو پی پی پی نے بے نظیر بھٹو کی قیادت میں ایک پرشور احتجاج کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو سمیت پی پی پی کے سارے ارکان ڈیسک بجاتے ہوئے گو بابا گو کے نعرے لگاتے رہے۔ صدر اسحاق خان نے تقریر تو مکمل کر لی لیکن بزرگ صدر کے ماتھا پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ 1993ء میں جب نواز شریف حکومت کو صدر غلام اسحاق خان نے ڈس مس کیا اور بے نظیر بھٹو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بنیں تو ایوان صدر میں غلام اسحاق خان نہیں تھے۔ پی پی پی فاروق خان لغاری کو صدر بنوانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ 1994 ء کے آغاز میں صدر لغاری پارلیمانی سال کے آغاز میں اسمبلی سے خطاب کرنے آئے۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے ’’چور لغاری چور‘‘ کے نعرے لگائے۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض ارکان نے کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر ’’چور لغاری چور‘‘ کا نعرہ درج تھا۔ صدر لغاری کے خطاب کے دوران پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان میں دھینگا مشتی بھی ہوئی۔ 1990 ء کی دہائی کی سیاست میں قومی اسمبلی کے ہر اجلاس میں شور شرابا ‘ ہنگامہ آرائی ‘ ایک دوسرے پر الزام تراشی معمول رہا۔
2008 ء کے انتخابات کے بعد پی پی پی کی زرداری حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی اپوزیشن کے درمیان یہ طے ہوا کہ وہ 1990 ء کی سیاست کو واپس نہیں آنے دیں گے۔ 2013 ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران مسلم لیگ (ن) کی اپوزیشن نے مثبت انداز میں پارلیمانی نظام کو چلانے میں کردار ادا کیا۔ 2013 ء کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تو پیپلز پارٹی کا ہے لیکن تحریک انصاف اس ایجنڈے پر چلنے کے لئے تیار نہیں کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کو شائستہ انداز میں چلایا جائے۔ تحریک انصاف نے 2014 ء میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور سپریم کورٹ کی عمارتوں کے سامنے احتجاج کرنے والے کارکنوں نے کپڑے دھو کر سوکھنے کے لئے ڈال دئیے تھے۔ اس احتجاج کے دوران پی پی پی نے مسلم لیگ ن کاساتھ دیا پھر 2016ء آ گیا اور پانامہ لیکس کا شور شروع ہوا۔ پی ٹی آئی نے پانامہ لیکس کی بنیاد پر احتجاج شروع کیا‘احتجاج سڑکوں پر ہوتا رہا۔ پی ٹی آئی پانامہ کا معاملہ سپریم کورٹ میں لے گئی۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے لیکن اس پر ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ اچانک عمران خان نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کر کے اجلاس میں جانے کا فیصلہ کیا۔ بدھ کی شام حسب توقع پی ٹی آئی نے پانامہ لیکس کے نام پر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ جب سپیکر نے خورشید شاہ کی تقریر کے بعد خواجہ سعد رفیق کو بولنے کے لئے مائیک دیا تو پی ٹی آئی کے ارکان کو موقع مل گیا۔ وہ سپیکر کی میز کے سامنے جمع ہو گئے اور انہوں نے نعرہ بازی شروع کر دی۔ اس سارے ہنگامے کو ہوا دینے میں جمشید دستی بھی پیش پیش رہے۔ جب خواجہ سعد رفیق بولنے کے لئے کھڑے ہوئے تو جمشید دستی نے ان پر طنزیہ فقرہ چست کیا جس سے ماحول خراب ہونا شروع ہوا۔ پی ٹی آئی کے بعض ارکان نے اسمبلی کے سیکرٹری اور ان کے عملہ کے سامنے رکھی آئین اور رولز کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں۔ سپیکر نے اجلاس کل تک ملتوی تو کردیا ہے لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کل اور اس کے بعد آنے والے اجلاسوں میں اسمبلی کی کارروائی اب سکون سے نہیں چلنے دے گی۔