اسلام آباد(یس اردو نیوز) کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد سے جرمنی نے تارکین وطن کی ملک بدری کی پہلی کارروائی کرتے ہوئے انیس پاکستانیوں کو ملک بدر کر کے اسلام آباد بھیج دیا گیا۔ پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے برلن حکومت کی اس کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ملک بدری کی ’ممانعت کا خاتمہ‘ قرار دیا ہے۔ جرمن اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن شہر فرینکفرٹ کے ہوائی اڈے سے دو روز قبل منگل 14 جولائی کو انیس پاکستانی شہریوں کو ایک طیارے کے ذریعے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد روانہ کر دیا گیا۔ جرمن پولیس نے اس اخبار کو بتایا کہ ملک بدر کیے گئے پاکستانی پناہ گزینوں میں سے زیادہ تر جرمن صوبوں باویریا اور باڈن ووٹمبرگ میں رہائش پذیر تھے۔جریدے کے مطابق یونان سے جرمنی پہنچنے والے اس طیارے میں پہلے ہی سے دس دیگر پاکستانی شہری بھی موجود تھے۔ ان پاکستانی پناہ گزینوں کو ان کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے بعد یونان نے ملک بدر کیا تھا۔ یوں اس طیارے کے ذریعے انتیس پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ باویریا میں پناہ گزینوں کی مدد کرنے والی کلیسائی تنظیم ماٹیئو سے منسلک اشٹیفان رائشل نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر جرمنی اب ملک بدر کیے گئے ان افراد کی صحت کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا اور حکام نے اس طیارے میں ایسے تارکین وطن کے ساتھ سفر کرنے والے جرمن پولیس اہلکاروں اور طیارے کے عملے کی صحت کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ماحول پسندوں کی گرین پارٹی نے بھی اس ملک بدری کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران جرمنی بھر میں ہر قسم کی ملک بدری کی سرگرمیوں کا معطل کیا جانا لازمی تھا۔دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا کہ صوبائی حکومتیں مشکل حالات میں بھی ملک بدری کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہیں۔ جرمنی سے پناہ گزینوں کی مخصوص حالات میں ملک بدری کے عمل میں وفاقی حکومت بھی صوبائی حکومتوں کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔