لاہور(ویب ڈیسک)ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کو عدالتی قتل سے تشبیہ دی جاتی ہے تو نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر کو دی جانی والی سزا کے حوالے سے احتساب عدالت کے فیصلہ کے نقائص پربھی کافی بحث ہو چکی لیکن ایک اور عدالتی فیصلہ ایسا ہے جو انتہائی متنازع ہے لیکن اُس پر
نامور کالم نگار انصار عباسی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔میڈیا یا سیاست میں کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ یہ فیصلہ راولپنڈی سے ن لیگ کے سابق ایم این اے حنیف عباسی کے بارے میں تھاجس کے تحت انہیں غیر قانونی طور پر 137 کلو گرام کی ایفی ڈرین رکھنے پر عمر قید کی سزا دے دی۔ اس کیس سے متعلق دی نیوز کے سینئر رپورٹر وسیم عباسی نے چند دن پہلے ایک خبر دی جس نے اس عدالتی فیصلہ کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا۔ انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے اس فیصلہ پر لاہور ہائی کورٹ کے ایک ایسے سابق جج جسٹس (ر) صغیر احمد قادری نے اپنی رائے بھی دی جنہوں نے ہائی کورٹ کے ایک اور جج کے ساتھ مل کر چند سال پہلے اسی کیس میں حنیف عباسی کی ضمانت منظور کی تھی۔ جسٹس(ر) صغیراحمدقادری کامانناہے کہ ملزم کوشک کافائدہ ملناچاہیےتھاکیونکہ گمان کی بنیادپرسزانہیں دی جاسکتی تھی۔خبر کے مطابق انسداد منشیات کی خصوصی عدالت راولپنڈی کے جج محمد اکرم خان کے69صفحات پرمبنی فیصلے کو پڑھنے پر انکشاف ہوتا ہے کہ حنیف عباسی کیخلاف پورا مقدمہ عدالت کی جانب سے گوگل پرکی گئی تحقیق اور اس گمان پرمبنی ہے کہ ملزم کی ملکیت میں غیرقانونی کیمیکل تھا
جس کی مدد سے میتھم فیٹامائن نامی منشیات تیارکی جاسکتی ہے۔ جسٹس(ر) صغیراحمد قادری کا کہنا ہے کہ فیصلہ کمزور ہے کیونکہ کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنسزایکٹ کی شق 9-cکے تحت ملزم کوجوسزادی گئی ہے وہ اس مقدمے کیساتھ مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ ملزم نے ایفی ڈرین قانونی طورپر حاصل کی تھی اور انھیں ایکٹ کی شق16کے تحت ہی سزا مل سکتی تھی جو کوٹے کے غلط استعمال پربات کرتی ہے۔انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے نومبر2012کے فیصلے کاحوالہ دیاجس میں کہاگیاتھاکہ سیکشن 9-c جس میں سزائے موت رکھی گئی ہے وہ حنیف عباسی کے مقدمے پر لاگو نہیں ہوتی کیونکہ ملزم کیلئے2010 میں گولیاں تیارکرنے کیلئے قانونی طورپر500کلوگرام ایفی ڈرین کاکوٹہ مختص کیاگیاتھا۔ جسٹس صغیرقادری اور جسٹس باقرنجفی پر مشتمل ہائی کورٹ بنچ نے حنیف عباسی کو 2012میں ضمانت دیتے ہوئے اے این ایف کو بتایاتھاکہ اگر حنیف عباسی کے خلاف الزامات ثابت ہوجاتے ہیں تو جرم پرسیکشن16 لاگوہوگی جو قابلِ ضمانت جرم ہے اور جرم کے خلاف زیادہ سے زیادہ سزاایک سال قید بنتی ہے۔ آرڈرمیں کہاگیاتھاکہ ایف آئی آراور بعد میں ہونیوالی تحقیقات میں حنیف عباسی کیخلاف واحد الزام یہ ہے کہ انھوں نے ایفی ڈرین کاغلط استعمال کیایا اس ایفی ڈرین کو ادویات (ڈی-ایسم 30ایم جی ٹیبلٹس)کی تیاری میں استعمال نہیں کیا۔
ہائی کورٹ کے سابق جج نے انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے فیصلے میں گمان لفظ کے استعمال پر شدید تنقید کی کہ الزام ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری تھی۔ جسٹس (ر) صغیرنے کہاکہ عدالت نے ایفیڈرین کو کنٹرولڈ اور منشیاتی چیز ثابت کرنے کیلئے گوگل کاسہارالیا جبکہ پاکستانی قانون میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ کے بنچ جس میں وہ بھی شامل تھے، اس کے فیصلے کیمطابق ایفیڈریین ضرور کنٹرولڈ چیزوں میں آتی ہے۔ حنیف عباسی کو جس عدالتی فیصلہ میں عمر قید کی سزا دی گئی وہ بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ استغاثہ ملزم کی جانب سےا سمگلروں یا منشیات فروشوں کوایفی ڈرین کی فروخت سے متعلق کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا لہٰذا عدالت نے فرض کرلیا کہ حنیف عباسی کے پاس 137کلوگرام غیرقانونی ایفی ڈرین ہے۔ یہ ذکرکرنابھی اہم ہے کہ استغاثہ ملزم سے کوئی منشیات برآمد نہیں کرسکا۔ تحریری فیصلے میں عدالت نے استغاثہ کے پیش کردہ ثبوت کوتسلیم کیاکہ 500کلوگرام ایفی ڈرین میں سے باقی بچ جانیوالی مقدار عباسی فارماسوٹیکل فیکٹری کی جانب سے ادویات(ڈی-ایس ٹیبلیٹس) کی تیاری میں استعمال کرلی گئی۔ یاد رہے کہ حنیف عباسی کو عام انتخابات سے چند دن قبل 21جولائی کو سزا دے کراڈیالہ جیل بھیج دیاگیا تھا۔ اُن کا کیس گزشتہ کئی سال سے
زیر التوا رہا اور اس دوران حنیف عباسی کئی بار اخبار نویسوں کو یہ درخواست کرتے نظر آئے کہ اُن کا کیس لٹکایا جا رہا ہے ۔ لیکن الیکشن سے کوئی دو تین ہفتے قبل انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک بنچ کے ذریعے ہدایت جاری کر دی گئی کہ روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کو سن کر فیصلہ 21 جولائی تک سنا دیا جائے۔ فیصلہ سنانے کے لیے صبح کا وقت دیا گیا لیکن سنایا کوئی رات بارہ بجے کے قریب گیا اور جب عمر قید کی سزا کا اعلان ہوا تو اس نے بہت سوں کو حیران کر دیا۔ عدالت نے تسلیم کیاکہ ایفی ڈرین کا متعلقہ قانون میں بطور کنٹرولڈ یا منشیاتی چیز کے ذکر نہیں ہے لہٰذا عدالت نے کسی کیمیائی ماہر کی غیرموجودگی میں گوگل پرتحقیق کا استعمال کیا۔ عدالتی فیصلے میں لکھا گیاہے کہ کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنسز ایکٹ1997میں ایفی ڈرین کاکوئی ذکرنہیں ہے۔ لہٰذا عدالت نے گوگل کے مضمون پر انحصارکیاتاکہ ثابت کیاجائے کہ ایفی ڈرین کو ’’میٹافیٹمائن‘‘یا’’میتھم فیٹامائن‘‘ کی تیاری میں استعمال کیاجاتاہے اس کا ذکرفہرست کی سیریل نمبر47 میں موجودہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1990کے مضمون کوفیصلے میں مکمل طورپر کاپی پیسٹ کیاگیاتھا۔ فیصلے میں کہاگیاہے کہ گوگل ’’ریسرچ‘‘ نے واضح کردیاہے
کہ ’’میتھم فیٹامائن‘‘ کو ایفی ڈرین کی استعمال سے تیار کیاجاسکتاہے۔دوسری جانب عدالت کو ایسا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حنیف عباسی نے اس شئے کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کردیا۔ تاہم عدالت کہتی ہے کہ اگرچہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہاکہ عباسی نے کسی کو ایفی ڈرین فروخت کردی ہے لیکن تب بھی یہ عدالت کاخیال ہے کہ ملزم گریز فارماسوٹیکل کمپنی کامالک یاشریک مالک ہونے کے ناطے ایفی ڈرین کاقانونی استعمال بتانے کاپابندتھا۔عدالت نے یہ گمان کرلیاکہ الفا کیمیکل لاہور 500کلوگرام ایفی ڈرین سے خریدنے کے بعد 363کلوگرام ڈی ایسم ٹیبلٹ بنانے میں استعمال کرلی گئی اور باقی 137کلوگرام ایفی ڈرین تاحال ملزم کے پاس ہے۔ حیران کن انداز میں عدالت نے تمام سات ملزمان بشمول حنیف عباسی کے بزنس پارٹنرکوشک کافائدہ دیتے ہوئے بری کردیا تاہم حنیف عباسی کو شک کا فائدہ نہیں دیاگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 9000کلوگرام ایفی ڈرین رکھنے کاپی پی پی کے سیاستدانوں بشمول موسیٰ گیلانی (سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے بیٹے)اور مخدوم شہاب الدین کا کیس سالوں سے التواکاشکارہے کیونکہ ملزمان اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیاہے کہ موجودہ قوانین کے تحت ایفی ڈرین ایک نان کنٹرولڈمواد ہے۔وسیم عباسی کی اس خبر کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے جیسے کسی ملزم کو قتل کی سزا تو دے دی گئی لیکن نہ لاش ملی نہ ہی یہ ثابت ہوا کہ قتل بھی ہوا کہ نہیں۔