بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ انہیں اپنے نظریات اور مقاصد حاصل کرنے ہیں اور یہ وزیراعظم بننے کی خواہش نہیں ہے۔ بی بی سی
نیوز کے پروگرام ’ہارڈ ٹاک‘ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’مجھے کوئی جلدی نہیں اور کوئی پریشانی نہیں، میں 29 برس کا ہوں اور میں اس عمل میں طویل مدت کے لیے ہوں‘‘۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پوری طرح اپنے اسی نصب العین پر قائم ہے اور میں جانتا ہوں کہ میں اپنی والدہ کے آئیڈیلز پر قائم ہوں اور ان کے لیے لڑوں گا اور ان کے لیے جان بھی دوں گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمہوری جماعتوں میں آپ اکٹھے کام کرتے ہیں اور اتفاق رائے سے فیصلے کرتے ہیں۔ ‘’میں اور میرے والد فیصلے نہیں دیتے بلکہ ہماری سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی ہے جو کہ جماعت کی پالیسی بناتی ہے اور تنقید کرتی ہے اور ہم اس پالیسی کی تعمیل کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کو چیلنج کرنے والوں اور اس کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والوں سے عسکری طور پر نمٹنا چاہیے لیکن دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وسیع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں مجموعی طور پر ایسی ’اپروچ‘ کی ضرورت ہے جس میں صرف توجہ دہشت گردی پر نہ ہو بلکہ انتہا پسندی کے خاتمے پر بھی توجہ ہو‘‘۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ انتہا پسندی ختم کرنے کے لیے تعلیم، نصاب، پولیس اور عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ سب کو مساوی معاشی مواقع حاصل ہوں اور یہ ایک جامع پیکج ہے جو صرف پیپلز پارٹی ہی دے سکتی ہے۔ پرویزمشرف کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بلاول کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو ‘صرف میری والدہ کے قتل کے کیس میں ہی ملزم نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ ان پر بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ پر بمباری اور قتل کا الزام ہے، غداری کا الزام بھی ہے لیکن وہ کسی مقدمے میں بھی پیش نہیں ہو رہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی حد تک تمام سیاسی جماعتوں کا خاندانی سیاست پر انحصار ہے۔ ‘’ پاکستان پیپلز پارٹی نے خاندانی سیاست کا راستہ خود اپنی مرضی سے منتخب نہیں کیا، میرے نانا اور والدہ کو قتل نہ کیا جاتا تو، میرے نانا سیاست دان ہوتے اور میری والدہ دفتر خارجہ میں ہوتیں اور میں اب بھی طالب علم ہوتا‘‘۔انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان میں دوسری سیاسی جماعتیں جو خاندانی سیاست پر انحصار کرتی ہیں وہ قتل کی تکلیف سے نہیں گزری ہیں لیکن پھر بھی بھائی، بہنیں اور دیگر شو چلا رہے ہیں۔