کمسن اولاد کی تربیت کے دوران برتی جانے والی ضرورت سے زیادہ سختی حالات کو سدھارنے کی بجائے خراب بھی کرسکتی ہے
ایک دن ایک کامیاب شخص نے یہ دیکھا کہ وہ گم ہو چکا ہے اور اس کی یہ حالت کچھ دیر تک ایسی ہی رہی۔ وہ فوراً ہی اس سوال کے جواب یعنی اپنے آپ سے پیش آنے والے اس مسئلے کے فوری حل کی تلاش میں مصروف ہو گیا، کیونکہ اس قسم کا مسئلہ پہلے کبھی اس کے ساتھ پیش نہیں آیا تھا۔ اس صورت حال کا آغاز اس کی بیوی کی اچانک وفات کے بعد ہوا۔ اب وہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ تنہا رہ گیا تھا۔ وہ اور اس کی بیوی نے اپنے بچوں کو پیار، محبت اور نظم وضبط کے ساتھ پرورش کرنے کی کوشش کی کیونکہ انہیں علم تھا کہ بچوں کی پرورش اسی طرح کی جاسکتی ہے۔
بنیادی طور پر انہوں نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کیونکہ انہوں نے اپنے والدین کو بھی اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔ بہرحال اس شخص کو اندازہ نہیں تھا کہ رات دن بچوں کی پرورش کس قدر مشکل ہے اور اس کی بیوی نے یہ ذمہ داری کیسے نبھائی۔ اسے احساس ہونے لگا تھا کہ وہ اسے کیا بتانے کی کوشش کرتی رہتی تھی اور اب باپ اپنے بچوں کے ساتھ جس قدر زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرتا، اسے محسوس ہوتا کہ وہ اپنے بچو ں سے کس قدر غافل تھا۔ پھر اس شخص نے اپنے بچوں کے رویوں کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اپنی ماں کی نسبت ان کا رویہ بہت ہی جارحانہ اور عجیب تھا۔ اس امرپر بھی وہ بہت حیران ہو اکہ اس کی بیوی اکثر اسے اپنے بچوں کی طرف سے بدتمیزی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتی تھی؟
جوں جوں اس نے اپنا جائزہ لینا شروع کیا اسے احساس ہوتا گیا کہ اس کے بچے کس قدر سرکش اور نافرمان تھے۔ اس کی ماں کی کوششوں کے باوجود وہ کس قدر بدتہذیب اور اکھڑ تھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ دیگر مردوں کی مانند زندگی میں اپنی مصروفیات کے باعث اس نے اپنی خاندانی زندگی کا آغاز بہت تاخیر سے کیا تھا۔ مگر کیا وہ نوجوان نسل سے اس قدر لاتعلق تھا۔ کیا سب بچے ایسے ہی تھے، کیسے اور کب اس کے یہ بچے گمراہ ہوئے؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باپ کو احساس ہونے لگا کہ اس کے گھر میں سنجیدہ مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ وہ ان واقعات کے متعلق نہیں سوچنا چاہتا تھا جو دنیا میں ہر طرف رونما ہورہے تھے؛ منشیات کے استعمال میں اضافہ، غنڈہ گردی، بدتمیزی، نوجوانوں میں جرائم، حتیٰ کہ متشدد جرائم اور خود کشیاں، یہ سب کچھ بہت ہی اذیت ناک اور پر یشان کن تھا۔ وہ پہلے لاپروا تھا، مگر اب وہ فیصلہ کن انداز میں سوچنے لگا: ’’ میرے بچوں کو اب نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔‘‘
اس کا خیال درست تھا۔ اس کے بچوں کو مزید نظم و ضبط درکار تھا اور پھر اس نے اپنے بچوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کا عمل شروع کر دیا۔ اسے یہ علم ہو چکا تھا کہ کس طرح بہتر طور پر وہ اپنے بچوں پر مزید نظم و ضبط لاگو کرسکتا ہے۔ ابتدا میں اس شخص نے وہ طریقے اختیار کیے جو اس نے اپنے والدین سے سیکھے تھے۔ جب بچے اس کے ساتھ بدتمیزی کرتے، وہ ان کی پٹائی کرتا، بلند آواز سے ڈانٹتا، ان کو کمروں میں بھیج دیتا، ان کا جیب خرچ بند کردیتا یا ان کی اچھی طرح ٹھکائی کرتا۔ لیکن ان طریقوں کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے۔ لہٰذا اس نے اپنے بچوں پر مزید سختی شروع کردی۔ اتنی سختی کہ بعض اوقات وہ خود بھی تھک جاتا۔
اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اس کے بچوں کا رویہ عارضی طور پر بہتر ہو گیا لیکن اندرونی طور پر ان کا رویہ اور طرز درست نہ تھا۔ وہ باپ کے سامنے بظاہر باادب اور فرمانبردار نظر آتے لیکن باطنی طور پر ان کا رویہ بالکل برعکس ہوتا۔ اب اس شخص کو گھر کی کشیدہ فضا اور ماحول کا ادراک ہونے لگا تھا۔ اب وہ بھی صورت حال سے مایوس اور پریشان نظر آرہا تھا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ اگر اس نے مزید سختی کی تو صورت حال مزید بگڑ جائے گی۔ لہٰذا بے جا سختی عارضی حل ہے جو نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔