میلانیا ٹرمپ کو ہی دیکھ لیں، یہ لڑکی سلووینیا کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی تھی، اس وقت سلووینیا، یوگو سلاویا کا حصہ تھا، اس کے ماں باپ کہیں سے بھی امیر نہ تھے، میلانیا کی پرورش بھی ایک عامیانہ سے ماحول میں ہوئی، ماڈلنگ اور اداکاری کا اسے جنون تھا، یہ جنون اسے سولہ برس کی عمر میں ہی ماڈلنگ کی دنیا میں لے گیا، اٹھارہ برس کی عمر میں اس نے ایک اطالوی فیشن ایجنسی سے معاہدہ کیا اور پھر اس کے بعد کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا، کئی فیشن میگزینز کے لئے فوٹو شوٹ کروائے، فیشن کے مقابلے جیتے، یہی جنون اسے نیویارک لے آیا جہاں اس نے امریکی شہریت حاصل کرنے کے لئے کوششیں شروع کر دیں، یہ کوششیں 2001میں بارآور ثابت ہوئیں جب اسے گرین کارڈ جاری ہوا جبکہ باقاعدہ امریکی شہریت 2006 میں ملی۔ ماڈلنگ جاری رہی جس دوران موصوفہ نے برہنہ تصاویر بھی بنوائیں جن کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’’یورپ میں یہ عام بات ہے!‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ سے میلانیا کی ملاقات ستمبر 1998 میں ہوئی، شروع میں ان کا تعلق قائم نہ رہ سکا مگر پھر جلد ہی دوبارہ ملاپ ہو گیا، ٹرمپ نے میلانیا سے 2005 میں شادی کی اور اس شادی میں بل اور ہیلری کلنٹن نے بھی شرکت کی۔ میلانیا ٹرمپ اب امریکہ کی خاتو ن اوّل بننے جا رہی ہے۔
میلانیا جیسی لاکھوں لڑکیاں روزانہ پیدا ہوتی ہیں، ماڈلنگ کی چکا چوند دنیا میں نام بنانا ان کا خواب ہوتا ہے، کچھ شروع میں ہی ناکام ہو جاتی ہیں جبکہ زیادہ تر لڑکیاں کامیابی کی ناقابل بیان قیمت چکاتے چکاتے ہی بیزار ہو جاتی ہیں، بہت کم ایسی ہوتی ہیں جنہیں پہلے دن سے ہی کامیابی نصیب ہو جاتی ہے اور وہ شہرت کی بلندیوں کو چھو جاتی ہیں، یہ وہ چند خوش نصیب ماڈلز ہیں جنہیں بین الاقوامی فیشن شوز میں مدعو کیا جاتا ہے، بڑے بڑے رسالے ان کی تصاویر کو اپنے سرورق کی زینت بنانے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں، دنیا کی ٹاپ ماڈلنگ ایجنسیاں ان سے معاہدے کرتی ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیاں انہیں اپنا برینڈ ایمبیسڈر مقرر کرتی ہیں، ارب پتی افراد ان سے دوستیاں کرنے کے خواہش مند رہتے ہیں اور لندن پیرس نیویارک کی روشنیوں میں ان کے شب و روز گزرتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ زندگی جس کا خواب دنیا کی کوئی بھی سپر ماڈل دیکھ سکتی ہے کیونکہ گلیمر کی دنیا کی یہی معراج ہے۔ میلانیا سمیت کوئی بھی ٹاپ ماڈل خواب و خیال میں بھی یہ نہیں سوچ سکتی کہ ایک دن وہ امریکہ کی خاتون اوّل بن سکتی ہے۔ میلانیا کو اگر خدا اپنے ہاتھو ں سے تقدیر لکھنےکا موقع دیتا تو بھی شاید وہ اپنے لئے یہ مقدر نہیں سوچ سکتی تھی جو اسے ملا ہے۔ یہ مقدر بڑی عجیب چیز ہے، اس کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا، بڑے سے بڑے کامیابی کے فلسفے اس کے سامنے ہیچ ہیں، عقل پر مبنی تمام سیلف ہیلپ کی تدبیریں اس کے سامنے الٹ جاتی ہیں اور انتھک محنت کا درس دینے والے مقدر والوں کو دیکھ کر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ اس کے آگے ان کا کوئی زور نہیں چلتا۔ سلووینیا جیسے ملک میں ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہونے والی لڑکی جسے شاید ماڈلنگ کی دنیا میں بھی اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہو گا، ایک دن امریکہ کی خاتون اوّل بن جاتی ہے، یہ صرف مقدر کا کھیل ہی ہو سکتا ہے کوئی انسان محض اپنی محنت کے بل پر یہ مقام حاصل نہیں کر سکتا۔
ادھر ڈونلڈ ٹرمپ کی کہانی بھی مختلف نہیں۔
پہلی مرتبہ میں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں تھوڑی بہت تحقیق2007 میں کی جب میں امریکہ کے شہر اٹلانٹک سٹی گیا، اسے منی لاس ویگاس بھی کہتے ہیں کیونکہ بحر اوقیانوس کے کنارے بسائے گئے اس شہر میں بڑے بڑے جوئے خانے ہیں جن میں سے کچھ ڈونلڈ ٹرمپ کی ملکیت ہیں، ایسے ہی ایک کسینو کا نام ٹرمپ تاج محل تھا جو تاج محل کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کا تصور میرے ذہن میں ایک ایسے جینئیس ارب پتی کا تھا جس کے منہ سے ’’پیٹر ڈرکر‘‘ کی طرح کامیابی کے نسخے جھڑتے ہوں گے، جس کی کتاب کا ایک باب روزانہ رات کو پڑھ کرسونے سے آدمی دنوں میں کروڑ پتی بن جاتا ہو گا اور جس کی زندگی ایک ایسے رول ماڈل امیر شخص کی ہو گی جو انتھک محنت، ذہانت، روحانیت اور خدا ترسی جیسی صفات کا ملغوبہ اور ورزش کا جنونی ہوگا۔ ٹرمپ یقیناً ایک ذہین شخص ہے (اور امریکہ کی صدارت حاصل کر کے اس نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے) مگر بہرحال ٹرمپ اُن معروف معنوں میں جینئیس شخصیت نہیں جس قسم کی جینئیس شخصیات کے بارے میں ہم سیلف ہیلپ کی کتابوں یا ارب پتیوں کی زندگیوں کا احوال بتانے والی کتب میں پڑھتے ہیں۔ شاید ہم میں سے کسی کو یاد بھی نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ریفارم پارٹی کی طرف سے اپنی صدارتی مہم چلائی تھی، یہ وہی ریفارم پارٹی ہے جس کی بنیاد’’ راس پیرو‘‘ نے 1995 میں رکھی تھی، راس پیرو نے 1992 میں بطور آزاد صدارتی امیدوار قریباً19 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ سن 2000میں اسی کے نقش قدم پر چلنے کی ٹرمپ نے بھی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی اور بعد ازاں اپنا نام صدارتی امیدواری سے واپس لے لیا۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ کیسے امریکہ کا صدر بن گیا؟ اس پر جتنے تبصرے ہو چکے ہیں اُن میں سوائے اس تبصرے کے کسی کی گنجائش نہیں کہ ٹرمپ اور امریکہ کے مقدر میں یہی لکھا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسے سے خوشی نہیں خریدی جا سکتی، ممکن ہے یہ بات درست ہو، مگر فی الحال تو ایک شخص نے پیسے سے امریکہ خرید لیا ہے، اب خوشی بھی خرید لے گا۔ باقی رہے اپنے ملک کے تبصرہ نگار تو اُن کے تجزیے دیکھ کر نہ جانے کیوں مجھے مزاحیہ پاکستانی اسٹیج ڈرامے یاد آ جاتے ہیں۔ یعنی جنہوں نے پاکستانی انتخابات کے نتائج کی غلط پیشین گوئیاں کی تھیں، انہی لوگوں نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر امریکی صدارتی انتخابات کا تجزیہ فرمایا جو اسی طرح غلط ثابت ہوا جیسے پاکستانی الیکشن کا تجزیہ غلط ہوا تھا۔ ان میں سے ایک صاحب، جو کچھ زیادہ ہی پڑھے لکھے ہیں اور خود کو آزاد تجزیہ نگار بتاتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایک سیاسی جماعت کے عشق میں ’’گٹوں گوڈوں‘‘ تک ڈوبے ہوئے ہیں، نے 2013کے انتخابات کے بارے میں کئی مرتبہ اپنے ’’حقائق پر مبنی‘‘ مختصر انگریزی کالم میں لکھا کہ ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی ۔۔۔۔نہ معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی اور نہ ہی انہیں شرم آئی۔ یہی نہیں بلکہ وہ تمام مدبر تجزیہ نگار جو پولنگ کے ختم ہونے تک ہیلری کی جیت کی پیشین گوئی کر رہے تھے، ٹرمپ کے حق میں نتائج آتے ہی کہنے لگے میں نے تو پہلے ہی predict کیا تھا کہ ٹرمپ کا چانس ہے۔ جس ملک میں اس قسم کا بھیانک قحط الرجال ہو، اُس ملک میں تو ’’دو نمبر جمہوریت‘‘ کی سمجھ آتی ہے مگر جناب والا، امریکہ تو آئیڈیل جمہوری ملک تھا، وہاں ٹرمپ ایسا شخص صدر منتخب ہو گیا، تو کیا وہاں بھی ’’دو نمبر جمہوریت‘‘ ہے؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا!