لاہور: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثارنے ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے پاکستانی بچے کو مقروض کردے۔سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثے اور اکاؤنٹس کی تفصیلات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے گورنراسٹیٹ بینک اور سیکرٹری خزانہ کے پیش نہ ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے اکاؤنٹس اور اثاثوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات پرعمل درآمد نہیں ہو رہا، ہم مفاد عامہ کا اہم ترین مقدمہ سن رہے ہیں جب کہ گورنراسٹیٹ بینک اورسیکرٹری خزانہ کو پرواہ ہی نہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کون کہتا ہے کہ ہم نے ایمنسٹی اسکیم کو رد کر دیا ہے، یہ معاملہ تو ہمارے سامنے آیا ہی نہیں، سوئٹزر لینڈ میں پڑے پاکستانیوں کے پڑے اربوں کھربوں کے بارے میں کیا کھوج لگایا ہے، پتہ ہونا چاہیے کہ ہر پاکستانی کے بیرون ملک کتنے اثاثے اور اکاؤنٹس ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پچھلی دو حکومتوں نے کیا کیا، تعلیم، صحت اور پینے کے پانی کا حال دیکھ لیں، زرمبادلہ کو پاکستان سے باہر لے جانے کے لیے کوئی پابندی ہی نہیں لگائی گئی، اربوں کھربوں کا سرمایہ پاکستان سے باہر چلا گیا، برآمدات ختم اور درآمدات بڑھتی جاری ہیں، اسمگلنگ ختم نہیں کرسکے۔ پاکستان میں حکومتوں کی غلط پالیسیوں سے ہر نومولود مقروض ہوگیا، قرضے خود لیتے ہیں اور بوجھ ایسے بچوں پر ڈال دیتے ہیں جو پیدا بھی نہیں ہوئے، کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے پاکستانی بچے کو مقروض کر دے، بتایا جائے کہ پاکستان کا ہر بچہ کتنا مقروض ہے؟، بتایا جائے کہ دس سال میں کتنے وزرائے خزانہ نے قرضے لیے اور غیر ملکی دورے کیے۔