ایک شخص کسی بزرگ کے پاس آیا اورکہا میری مدد کیجیے، میرے مسائل میری طاقت سے بہت زیادہ ہیں میں انھیں حل نہیں کرسکتا۔ بزرگ نے اسے کندھوں سے پکڑا اورکہا دیکھو مجھے ابھی جانا ہے ویسے اگر تم چاہوتو میں تمہیں ایک ایسی جگہ بتاسکتا ہوں، جہاں لوگوں کوکوئی مسئلہ نہیں، میں تمہیں وہاں پر لے بھی جاؤں لیکن شاید تم وہاں رہنا پسند نہ کرو۔اس شخص نے اشتیاق سے کہا میں وہاں ہر قیمت پرجانا چاہتا ہوں اوران لوگوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں،جنہیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ بزرگ نے کہا تم ایک بار توچلے جاؤ گے لیکن شاید تم پھر وہاں رہنا نہ چاہو وہ جگہ یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے وہ شخص چلنے کے لیے تیارہوگیا تھوڑی دیر بعد بزرگ نے ایک جگہ پہنچ کر اس شخص سے کہا وہ سامنے قبرستان ہے، جہاں تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ د فن ہیں ان میں سے کسی کو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔
اگرآپ کو مسائل درپیش ہیں تو آپ خوش نصیب ہیں۔اس لیے کہ آپ ابھی تک زندہ ہیں،کیونکہ مسائل زندہ انسانوں کو درپیش ہوتے ہیں مردوں کو نہیں۔ یہ ہی سچ ہے لیکن اگر آپ اپنے آپ کو درپیش مسائل سے گھبرا گئے ہیں اورآپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ اپنے مسائل کو کبھی حل نہیں کر پائیں گے تو یہ آپ کا ذاتی سچ ہے۔ اسی لیے ازلی سچ اورآپ کا ذاتی سچ دونوں مختلف ہیں۔ یاد ر ہے مسائل اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب اصل سچ اورآپ کا ذاتی سچ مختلف ہوتے ہیں۔
ماہرین نفسیات نے ایک تجربے میں بلی کو رسی سے باندھ کر بجلی کے جھٹکے دیے۔ بلی نے کئی بار کوشش کیں، لیکن وہ اس تکلیف دہ صورتحال سے فرار اختیار نہ کرسکی۔ تجربے کے دوسر ے حصے میں بلی کے گلے میں رسی لٹکا دی گئی،لیکن اسے باندھا نہیں گیا وہ چاہتی تو جھٹکا کھانے کے بعد بھاگ سکتی تھی آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بھاگ جانے کے امکان ہونے کے باوجود بلی چپ چاپ اگلے جھٹکے کا انتظار کرتی رہی کیونکہ اس نے سیکھ لیاتھا کہ وہ بے بس ہے یہ بلی کا ذاتی سچ تھا جب کہ اصل سچ مختلف تھا بلی اپنی ذاتی سچ کے ہاتھوں مسلسل دکھ اور تکلیف سہتی رہی۔ کیونکہ وہ اپنے ذاتی سچ کو اصل سچ سمجھتی رہی۔ نفسیات کے ماہرین نے انسانی شخصیت کو ایک ایسی کھڑکی سے تشبیہ دی ہے۔
پاکستان کے 80 فیصد لوگ کھڑکی کے تیسرے پٹ ہیں،جو نہ اپنے بارے میں جانتے ہیں اورنہ ہی لوگ ان کے بارے میں جانتے ہیں۔اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ ساری زندگی اپنے آپ کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے ہیں۔ وہ ہرزیادتی، ناانصافی، ظلم وستم کو چپ چاپ بغیر مزاحمت کے بغیر چیخے چلائے سہے جارہے ہیں اور زندگی کے آخری موڑ پر اگر ان سے سوال کیاجائے کہ انھوں نے اپنی زندگی اس طرح کیوں گزاری تو وہ بڑے ہی معصومانہ انداز میں جواب دیتے ہیں کہ میں اس کے علاوہ اورکر بھی کیا سکتا تھا میرے پاس اور کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا ہم سب اس بلی کی طرح یہ سیکھ چکے ہیں کہ ہم بے بس ہیں اپاہج اور محتاج ہیں جب آپ اپنے آپ کو اپاہج اور محتاج سمجھ لیتے ہیں تو پھر آپ کے پاس بے بسی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچتا ہے۔
ہم میں سے ہر بے بس شخص پاکستان سے بھاگنا چاہتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کی تمنااورخواہش یہ ہی ہے کہ وہ سوئیں تو ان کی آنکھ ایسی جادوئی سرزمین پرکھلے جہاں کوئی مسئلہ نہ ہو جہاں کوئی پریشانی نہ ہو جہاں نہ تو پانی، بجلی،گیس کی کوئی قلت ہو جہاں نہ تو مہنگائی اور بیروزگاری ہو جہاں لوگ صرف سچ بول رہے ہوں۔
چاہے وہ عدالت ہو یا پارلیمنٹ یا قومی خطاب ہو چاہے عام زندگی کے روز مرہ کے معاملات ہوں، جہاں کوئی دوسرے کو عقیدے کی بنیاد پر قتل نہ کر رہاہو، اس سے نفرت نہ کررہا ہوں، جہاں اختلاف پر سب کااتفاق ہو جہاں ناانصافی اور اقربا پروری نہ ہو جہاں کرپشن نہ ہوجہاں لوگ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں جہاں شرافت، ایمانداری، سچائی، دیانت داری کا بول بالا ہو جہاں لوگ نفسیاتی مریض نہ ہو جہاں سوال کرنے پر پابندی نہ ہولیکن کریں تو کریں کیا کیونکہ ایسی کسی جادوئی سرزمین کا اس زمین پرکوئی وجود نہیں ہے جہاں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ چین ہی چین ہو دنیا کی ہر زمین پر جہاں انسان بستے ہیں، وہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ مسائل بھی بستے ہیں لیکن ان کی تعداد کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ یاد رہے وہ ممالک ہمیشہ ہی سے ایسے نہ تھے بلکہ ان ممالک میں انسانوں سے زیادہ مسائل بستے تھے۔
وہاں بسنے والوں نے ان مسائل کو اپنے اپنے ملکوں سے دربدر اورجلاوطن کرنے کا فیصلہ کیاوہ ان مسائل سے ڈر ے یا خوفزدہ نہیں ہوئے وہ اپنے ملکوں سے بھاگے نہیں بلکہ وہ مل کر بیٹھے سوچ بچار شروع کیا۔ وہ مسائل ان سے زیادہ طاقتور اور توانا تھے لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری قربانیاں دیں جدوجہد کی اور بالآخران کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہاںسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسائل کا خاتمہ ہوگیا ہے اور وہاں نئے مسائل پیداہی نہیں ہوتے۔ انھوں نے اپنے اپنے ملکوں میں ایسا سسٹم بنادیا ہے کہ مسائل کے پیدا ہوتے ہی ان کاخاتمہ ہوجاتا ہے،کیونکہ برائیوں، خرابیوں اور بدیوں کا خاتمہ خود بخودکبھی نہیں ہوتا۔ یہ ہم ہی ہوتے ہیں جو ان کو اپنے ہاتھوں ختم کرتے رہتے ہیں وہ پیدا ہوتی رہتی ہیں، ہم ان کو ختم کرتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح سے چلتا رہتا ہے۔
والڈو نے کہا تھا ’’انسانی زندگی کے سب سے بڑے دشمن وحشی حقائق نہیں بلکہ وہ بزدل انسان ہیں جوحقائق کا مقابلہ نہیں کرسکتے‘‘ اصل میں مسئلے مسائل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ہم خود ہوتے ہیں اور جب آپ اپنے لیے خود مسئلہ بن جاتے ہیں تو پھر دنیا میں اس سے بڑا مسئلہ کوئی اورہوہی نہیں سکتا۔اسی لیے ہمارا مسئلہ مسائل نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ مفلوج زندگی مفلوج رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے کیونکہ مفلوج رویے آپ کا خون چاٹتے رہتے ہیں اور پھرآپ اپنا خون چٹوانے کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ اس کے علاوہ آپ کوکسی اورچیز سے تسکین یا لذت نہیں ملتی ہے۔