قاہرہ (نیٹ نیوز ) جمعرات کے روز قاہرہ میں مصر اور اردن کے وزراء خارجہ اور تنظیم آزدی فلسطین کی مجلس عاملہ کے سکریٹری کے درمیان مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں تینوں ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان نے بھی شرکت کی۔
اجلاس میں مسئلہ فلسطین سے متعلق خصوصی پیش رفت اور فلسطینی اراضی میں ہونے والی حالیہ جارحیت کو زیر بحث لایا گیا۔ تینوں ممالک کے ذمّے داران نے اپنی اراضی کے دفاع کا قانونی اور اخلاقی حق استعمال کرنے والے نہتّے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی کارستانیوں کی سخت مذمت کی۔ ساتھ ہی باور کرایا گیا کہ فلسطینیوں کو امن و آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے اور یہ کہ بین الاقوامی فیصلوں کے مطابق 4 جون 1967ء کی سرحدوں پر ایک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔ اجلاس کے شرکاء نے حالیہ جارحیت کا سلسلہ جاری رہنے کی صورت میں بھیانک خطرات سے خبردار کیا جو فلسطین کے مسئلے کے ایک پرا من اور منصفانہ حل کی راہ میں رکاوٹ ہوں گے۔ لہذا عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ بین الاقوامی فیصلوں اور عرب امن منصوبے کے مطابق دو ریاستی حل کی بنیاد پر تنازع کے حل کے واسطے کوششیں کرے۔
اجلاس میں عرب دنیا کے اس موقف کو بھی باور کرایا گیا کہ بیت المقدس شہر کی تاریخی اور قانونی حیثیت تبدیل کرنے کے مقصد سے کسی بھی جانب دارانہ کارروائی کو یکسر مسترد کیا جاتا ہے۔
اجلاس میں امن عمل کے دوبارہ آغاز کے واسطے تمام بین الاقوامی اور علاقائی مواقف کو بھرپور بنانے اور باہمی رابطہ کاری کے طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔ علاوہ ازیں فلسطینی عوام کو بین الاقوامی سطح پر تحفظ کی فراہمی کے لیے سلامتی کونسل میں عرب ممالک کی کوششوں اور اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کی سپورٹ کے مختلف راستوں پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
اجلاس میں مصری جانب سے فلسطینی مصالحت کے عمل کو فعّال بنانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ پیش کیا۔ اس موقع پر باور کرایا گیا کہ فلسطینی صفوں کی یک جہتی کو یقینی بنانے کے لیے مصالحت مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
علاوہ ازیں گزشتہ اکتوبر میں قاہرہ میں دستخط کیے جانے والے اُس معاہدے پر عمل درامد کی اہمیت کو بھی باور کرایا گیا جس کا مقصد باہمی اختلافات کا خاتمہ اور قومی وفاق کی فلسطینی حکومت قائم کرنے کی راہیں آسان بنانا ہے۔
اجلاس میں مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں اقتصادی صورت حال اور فلسطینی شہریوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ ساتھ ہی آئندہ عرصے کے دوران تینوں ممالک کے درمیان مشاورت اور رابطہ کاری کو بڑھانے پر بھی اتفاق رائے ہوا تا کہ فلسطینی اراضی کی تازہ ترین پیش رفت کا جائزہ لیا جا سکے۔۔