گزشتہ دو کالموں پر بڑے دلچسپ تبصرے سننا پڑے۔ پتا نہیں لوگ حقائق بیان کرنے کو بھی کیوں سیاست کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں مثلاً ان کالموں کی اشاعت پر میرے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے ہمدرد بڑے خوش تھے کہ میں نے حکومت کے خلاف بہت سخت لکھ دیا ہے۔ سماجی رابطوں میں متحرک رہنے والوں نے بھی واہ واہ کر ڈالی۔ خود پی ٹی آئی کے اندر سے لوگوں نے فون کر کے کہا کہ یہی ہماری آواز ہے، یہی ہمارا مؤقف ہے۔ شادیوں کی مختلف تقریبات میں بھی یہی سوال گردش کرتا رہا بلکہ دو تین دوستوں نے تو بالکل ہی لحاظ کئے بغیر پوچھ لیا کہ حضور! کس کے کہنے پر لکھا ہے۔ اسلام آباد میں پوچھ گچھ کا یہ عمل جاری تھا کہ مجھے سید عارف نوناری کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے لیے لاہور آنا پڑ گیا۔ ’’چیئرنگ کراس‘‘ کی تقریب میں بھی میرے ایک بہت پیارے دوست نے پوچھا کہ آپ نے پی ٹی آئی کے خلاف لکھا ہے، ان کے لہجے میں حیرت بھی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ سب سے دلچسپ تبصرہ ملتان کی عالیہ جمشید خاکوانی کا ہے، وہ لکھتی ہیں کہ ’’آپ کو یہ سوالنامہ براہِ راست مل کر پیش کرنا چاہئے تھا اور اس کا جواب اِن کیمرہ لینا چاہئے تھا کیونکہ جن کی ترجمانی آپ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ تو یہ سوال نہیں اٹھا رہے، میرے پاس بھی بہت سوال ہیں لیکن ایک سوچ ان سب پر حاوی ہو جاتی ہے کہ ہم نے چالیس برس خاموشی سے ملک برباد کیوں ہونے دیا۔ جب دن میں پندرہ پندرہ لڑکیاں منی لانڈرنگ کرتی رہیں، جب صدر کا پروٹوکول افسر خود آکر ایان علی کو کلیئر کرواتا رہا، میڈیا اُس وقت کیوں نہ بولا؟ جب پاکستانی دولت جوا خانوں میں ہاری جاتی رہی، کیوں خاموش رہے۔ جب لاہوری خاندان کے لئے لڑکوں کا پورا گینگ منی لانڈرنگ کرتا رہا، آپ کیوں خاموش رہے، اب آپ کو سات ماہ بعد ہی سوال کرنا یاد آگئے ہیں؟‘‘ چند اور مہر بانوں نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کیا، جو کسی کا دل چاہا اس نے خوب کہا۔
ان تمام تبصروں کے جواب میں میرا بھی ایک تبصرہ ہے کہ میں اپنی قوم پر بہت خوش ہوں، یہ ایک زندہ قوم ہے، ہمارا آج کا نوجوان سوشل میڈیا پر وہ کچھ کہہ جاتا ہے جو روایتی میڈیا کہنے سے ہچکچاتا ہے۔ مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ لوگ اب چوری اور کرپشن کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ بلاشبہ اس کا بڑا کریڈٹ عمران خان ہی کو جاتا ہے کہ انہوں نے سالہا سال کی مسلسل محنت سے لوگوں کو جگایا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں اقتدار اس وقت ملا، جب ملک کی معاشی حالت انتہائی خراب ہو چکی تھی، جب پاکستان کا مالی اور ذہنی سرمایہ ملک سے باہر جا چکا تھا، جب ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا تھا، جب اسحاق ڈار بہت کچھ گروی رکھوا کر فرار ہو چکے تھے۔
میں آپ سب کا شکر گزار ہوں کے آپ لوگ وقت نکال کر پڑھتے ہیں، ورنہ مجھ عاصی و خاطی کے پاس تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں نے ضمیر کو ہمیشہ آزاد رکھنے کی کوشش کی ہے، نہ کبھی کسی سیاسی پارٹی کا اسیر رہا ہوں، نہ مفادات کی پرستش کی ہے، بس جو ملک و قوم کی خاطر بہتر سمجھا، وہی تحریر کر دیا۔ ویسے بھی اس مختصر سی زندگی میں دولت کا کیا سمیٹنا کہ دولت کا انجام رسوائی ہے، دولت کی حیثیت خاک سے زیادہ کچھ نہیں، میں نے کسی کی بھی تدفین کے وقت سونا چاندی اور ڈالرز ساتھ جاتے نہیں دیکھے بلکہ یہ تمام چیزیں اسی وقت مر جاتی ہیں، جب زندگی انسان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ یہ چیزیں کسی اور کی ہو جاتی ہیں۔ پتا نہیں انسان کیوں نہیں سوچتا کہ جو چیزیں اس کی نہیں ہیں وہ کیوں ان چیزوں کے حصول کی خاطر اپنا ضمیر بیچتا ہے۔ جب بھی کوئی انسان اپنا ضمیر بیچتا ہے تو وہ زندگی کے آئینے میں اپنا مقام کھو بیٹھتا ہے۔ یاد رکھنا، زندگی روز روز وقار نہیں بخشتی۔
عمران خان وزیراعظم تو اب بنے ہیں، میرا ان سے بائیس سال پرانا تعلق ہے، انہیں ہر ملاقات میں کئی باتیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، دوستوں کو کڑوی کسیلی باتیں سنا دینا پرانا شیوہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے ایک صحافی دوست میرے ساتھ بنی گالہ گئے، ان کا جوان بھانجا بھی ان کے ساتھ تھا۔ یہ ایک سہ پہر تھی، بند کمرے میں صرف چند افراد تھے، اس ملاقات میں (دانیال عزیز کو مکا مارنے والے) نعیم الحق بھی موجود تھے۔ عمران خان نے ریحام خان کو تازہ تازہ طلاق دی تھی۔ اب نجانے میں نے عمران خان سے کیا کچھ کہہ دیا ہوگا کہ میرے صحافی دوست کے بھانجے نے باہر نکلتے ہی کہنا شروع کر دیا کہ میں سوچ رہا تھا کہ ’’ابھی عمران خان اٹھے گا اور لڑ پڑے گا، ابھی نعیم الحق اٹھے گا اور مکا مار دے گا، ہم تینوں کی خیر نہیں، باہر پی ٹی آئی کے کارکن بھی جمع ہیں‘‘۔ میں نے اس کی باتیں سننے کے بعد کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں، میں خان صاحب سے اس سے بھی سخت باتیں کرتا ہوں، آپ نے تو ابھی غصہ دیکھا ہی نہیں۔
عام پاکستانیوں کی طرح میرا بھی یہی مطالبہ ہے کہ لوٹ مار کرنے والوں سے حساب لیا جائے، کسی کو معافی نہ دی جائے۔ خود کو بہادر کہنے والوں سے بھی یہی مطالبہ ہے کہ ذرا وطنِ عزیز تشریف لے آئیں، کیوں چھپتے پھرتے ہیں۔ خاص طور پر اسحاق ڈار، سلمان شہباز، علی عمران اور دو برطانوی شہری یعنی حسین نواز اور حسن نواز۔ حفاظتی ضمانتوں کے پیچھے چھپنے والوں سے بھی یہی مطالبہ ہے کہ ایسا نہ کریں، دس سالوں میں جو 60ارب ڈالرز پاکستان کے نام پر قرض لئے گئے، وہ کہاں ہیں؟ بالکل اس کا حساب ہونا چاہئے، حساب تو ہر کسی سے ہونا چاہئے۔ کسی دن سیاستدانوں کے علاوہ افراد کا بھی تذکرہ کروں گا کہ
خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں
مجھ کو محفوظ میری ماں کی دعا نے رکھا