لاہور: اس کی بنیاد اخبار ڈان میں ممبئی حملوں سے متعلق ان کا انٹرویو ہے نواز شریف نے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’مسلح تنظیمیں یعنی نان سٹیٹ ایکٹرز فعال ہیں کیا ہمیں ان کو اجازت دینی چاہئے تھی کہ وہ سرحد پار جائیں اور ممبئی میں 150افراد کو قتل کردیں ،
ہم ممبئی حملوں کا ٹرائل کیوں مکمل نہیں کرسکے ،یہ قطعی ناقابل قبول ہے ‘‘ اس انٹرویو نے نواز شریف اور ان کی جماعت کے لئے بڑے بحران کو جنم دیا ہے جب کہ ن لیگ الیکشن میں جانے کی تیاری کر رہی ہے یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ اس کا بھرپور رد عمل سامنے آیا ہے یہ رد عمل ہر طرف سے سامنے آرہا ہے ،حزب اختلاف کی جماعتوں کے لئے یہ ایک سنہرا موقع ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ کو آڑے ہاتھوں لیں ۔پچھلے دو دن سے سوشل میڈیا اور ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ ’’ہیش ٹیگ، غدار نواز شریف‘‘ہے ، ن لیگ کے کچھ لوگ نواز شریف کے اس انٹرویو کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی بات کر رہے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف اپنے اس انٹرویو پر قائم ہیں ،وہ کہتے ہیں انھوں نے کونسی غلط بات کی ہے ،اس کا بھرپور اظہار انہوں نے بونیر کے جلسے میں بھی کیا۔یہ حکومت اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے لئے ایک مشکل صورتحال ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وزیر اعظم کی زیر صدارت پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا ۔اس اجلاس نے خاص طور پر نواز شریف کے بیان سے
لا تعلقی کا اظہار کیاور ان کے اس بیان کی مذمت بھی کی ہے ۔نواز شریف کے لئے یہ کڑا وقت ہے کہ ان کی جماعت اور ان کی حکومت اور پاکستان کی پوری فوجی قیادت ان کے بیان کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے ۔اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا وہ نواز شریف کے لئے پریشان کن ہونا چاہئے ۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بھی کل کہہ چکے ہیں کہ ممبئی حملوں کے ذمہ دار افراد پر پاکستان میں کیس نہ چلنے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کیا اور پر اسرار طور پر اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی گویا چودھری نثار نواز شریف کے الزام کی مکمل نفی کر رہے ۔ سوال ہے کہ نواز شریف کو اس بے وقت راگنی کی ضرورت کیا تھی ،مبصرین کہتے ہیں کہ پاناما کیس کے فیصلے پر نواز شریف کا غصہ ہے جو بڑھتا چلا جارہا ہے جس کا اظہار انھوں نے کیا ہے ۔ شہباز شریف کو ان کے بیان کو نیا رنگ دینا پڑا جس کی آج خود نواز شریف نے تردید کردی اور شہباز شریف کا بھی مان نہیں رکھا۔ اس حوالے سے آج ایک سنسنی خیز واقعہ ہوا ۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اچانک یہ بات سامنے آئی کہ وزیر اعظم ایک پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے ۔ پہلے سے بتا دیا گیا کہ اس میں تمام ٹی وی چینلز کو مدعو نہیں کیا گیا تھاصرف پی ٹی وی کی ٹیم وہاں موجود تھی میزبان کے مطابق جب یہ پریس کانفرنس شروع ہوئی تو ایسا لگا کہ وزیر اعظم اپنی سیاسی پوزیشن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں یا نواز شریف سے ملاقات کے بعد وہ کسی دبائو میں ہیں اور اس وجہ سے انھیں پریس کانفرنس کرنا پڑی ،بنیادی مقصد ان کا یہ تھا کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں جو کچھ کہا گیا ہے ،اس کی نفی کریں یا اپنی پوزیشن کو کسی صورت تبدیل کریں ۔پی ٹی وی نے بھی اس پریس کانفرنس کو نہیں دکھایایہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے اور یہ اس بحران کی نشاندہی کر رہا ہے جو حکومت کے اندر پنپ رہا ہے یا اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وزیر اعظم یا ان کی حکومت نہیں چاہتی کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کی نفی کی جائے اس لئے شاید نواز شریف کو خوش کرنے کے لئے وزیر اعظم نے پریس کانفرنس تو کردی مگر اس کی تشہیر نہ ہوسکی ۔جو صحافی وہاں موجود تھے
ان سے شاہد خاقان عباسی نے جو بات کی ،اس سے لگتا ہے کہ وہ ایک کشمکش میں مبتلا ہیں ایک جانب پاکستان ،فوجی قیادت ، اسٹیبلشمنٹ اور ان کی جماعت ہے ،دوسری جانب ان کی نواز شریف کے ساتھ وفاداری ہے ۔ اس پریس کانفرنس میں جو جملے انھوں نے کہے مگر پاکستانیوں نے نہیں سنے ۔ان کا کہنا تھا ’’ میں نواز شریف کے ساتھ ہوں ۔مجھے آرمی چیف نے نہیں کہا بلکہ وضاحتی بیان دینا میرا اپنا فیصلہ ہے ،قومی سلامتی کمیٹی نے ان الفاظ کی مذمت کی جو نواز شریف سے غلط منسوب کئے گئے ۔نواز شریف لیڈر تھے ہیں اور رہیں گے انھیں ووٹ دینے پر شرمندگی ہے نہ ندامت۔مجھے کوئی کھینچ رہا ہے نہ کسی کو کھینچنے کی اجازت ہے ۔خلائی ہو یا زمینی مخلوق الیکشن ہم جیتیں گے ۔حکومت مقررہ مدت کے آخری لمحے تک رہے گی ،استعفیٰ کا سوچ رہا ہوں نہ استعفیٰ دوں گا۔سول ملٹری تعلقات وہیں ہیں جہاں تھے ، ’’سینئر تجزیہ کار کامران خان کے بقول وزیر اعظم الفاظ کے حوالے سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے الفاظ حقیقت کی ترجمانی نہیں کر رہے کیونکہ نواز شریف نے یہ بالکل نہیں کہا کہ ان کے انٹرویو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ۔
نجی نیوز چینل کے بیورو چیف ابراہیم راجہ نے پریس کانفرنس کے حوالے سے بتایا کہ یہ حکومت کا اپنا فیصلہ تھا کہ پریس کانفرنس ٹیلی کاسٹ نہیں کی جائے گی ۔نجی چینلز کو آنے کی اجازت نہیں تھی حکومتی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نہیں چاہتے تھے کہ پریس کانفرنس سے کسی نکتے کو غلط انداز میں سمجھا جائے اور پھر اس پر کوئی تنازع نہ کھڑا ہو جائے ۔ میزبان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے تھوڑی سی سیاست کھیلی۔انھوں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس بیان کی مذمت بھی کردی ،پریس کانفرنس میں نواز شریف کے ساتھ رہنے کا پیغام بھی دے دیا مگر پریس کانفرنس کو قوم کے ساتھ شیئر نہیں کیالیکن اس سے حکومت اور وزیر اعظم کا امیج بری طرح سے متاثر ہوا ہے ۔حکومت کی اس بارے میں کیا پوزیشن ہے اس بارے میں وزیر اعظم کے ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پریس کانفرنس نہیں تھی،پریس ٹاک تھی اور پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ کیمروں کی ضرورت نہیں ہے گمان یہ تھا کہ ایک لمبی گفتگو ہوگی جو ہوئی ،وہاں کسی کے بھی کیمرے نہیں تھے انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے جو نقطہ نظر پیش کیا
اس میں اور قومی سلامتی کمیٹی کے بیان میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا،نواز شریف نے کسی وقت بھی یہ نہیں کہا کہ یہ کام ہمارے ادارے یا ریاست کر رہی ہے انھوں نے تو دہشت گرد تنظیموں کا ذکر کیا ہے ۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنماشیخ روحیل اصغر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تو اس وقت ڈان لیکس کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ نواز شریف سے ملک کی وزارت عظمیٰ چھین لی گئی ہے ۔آج نواز شریف کی ٖحیثیت ایک عام شہری کی ہے ۔انہوں نے ایک سوال کیا ہے یہ سوال ہر پاکستانی کی سوچ ہوسکتی ہے ، حالانکہ یہ باتیں پرویز مشرف ،آصف زرداری اور عمران خان نے بھی کی تھیں ۔یہ باتیں جنرل درانی اور جنرل پاشا نے کی تھیں ۔سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے بیان پر افسوس ہواانھوں نے بتایا کہ میں نے اپنی کتاب میں نان سٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے کھل کر لکھا ہے ۔ یہ ان ایشوز میں شامل ہے جس کا ایک وزیر خارجہ کو سامنا ہوتا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ نان سٹیٹ ایکٹرز نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے ۔ نواز شریف کے بیان پر مجھے صدمہ ہوا ۔ ان کے بیان کی ٹائمنگ بہت اہم ہے ۔ ہمیں گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے ۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ ہمیں بلیک لسٹ میں لایا جائے گا یا نہیں ؟ صدر ٹرمپ کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا اپوزیشن کو چھوڑ دیں ۔نواز شریف کی پارٹی کا حشر دیکھ لیں شہباز شریف ان سے فاصلہ اختیار کر ر ہے ہیں۔