ڈنمارک (زاہد مصطفی اعوان) انتخابات سے قبل تارکین وطن کے مسئلے پر بحث غیر مطلوب’ اور ‘غیر مہذب’ ڈنمارک میں تارکین وطن کے حوالے سے جاری بحث میں اس طرح کے الفاظ بھی مسلمان مہاجرین کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ بحث ایک ایسے وقت پر جاری ہے جب ملک میں عام انتخابات قریب ہی ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس طرح کے الفاظ غیر ملکیوں کے لیے حیرت کا باعث تو ہیں ہی مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ ملکی سیاستدانوں کی طرف سے تارکین وطن کے لیے اس طرح کے جذبات میں کمی لانے کے لیے کسی قسم کی کوئی کوشش نظر نہیں آ رہی۔
برطانیہ میں پیدا ہونے والی ایک اسکول ٹیچر کیلی ڈریپر کے مطابق، ”جہاں اس طرح کے جذبات موجود ہوں ان لوگوں کے ساتھ انظمام کے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا،کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ یا تو مجرم ہیں یا پھر ایک مفت کے مزدور۔” سات برس قبل اسکنڈے نیویا کے اس ملک میں منتقل ہونے والی ڈریپر مزید کہتی ہیں، ”آخری مرتبہ جب میں مقامی خبریں دیکھی تھیں۔۔۔ تو ان میں دکھائی جانے والی چار رپورٹوں میں سے تین اس بات پر تھیں کہ کیسے تارکین وطن ہر چیز چلا رہے ہیں۔”
ڈنمارک میں عام انت?خابات کے لیے 18 جون کی تاریخ طے ہے۔ ان انتخابات کے حوالے سے تارکین وطن کے حوالے سے تحفظات اور اسلام ایجنڈا سرفہرست ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قبل از انتخابات کرائے جانے والے جائزوں میں دائیں بازو کی اپوزیشن سبقت لیے ہوئے ہے۔ تاہم اگر یہ جماعت انتخابات میں کامیابی حاصل بھی کر لیتی ہے تو پارلیمان میں قانون سازی کے لیے تارکین وطن کی مخالفت کرنے والی جماعت ڈینش پیپلز پارٹی (DPP) کی حمایت درکار ہو گی۔ DPP کے بیانات بعض لوگوں کے نزدیک جارحانہ اور یہاں تک کہ نسل پرستانہ ہوتے ہیں۔
تاہم ایسے بیانات کے بڑھتے ہوئے زہریلے پن پر غیر ملکی انگشت بدنداں ہیںیورپ کے دیگر ممالک میں موجود اس طرح کی جماعتوں کی طرح DPP بھی وقتا فوقتا ایسے بیانات جاری کرتی رہتی ہے جو بعض لوگوں کے نزدیک جارحانہ اور یہاں تک کہ نسل پرستانہ ہوتے ہیں تاہم ایسے بیانات کے بڑھتے ہوئے زہریلے پن پر غیر ملکی انگشت بدنداں ہیں۔کوپن ہیگن میں رہنے والے ڈیوڈ مِلر کہتے ہیں، ”میں یہودی ہوں اور میں یہاں کے لوگوں کو ہمیشہ کہتا ہوں کہ آپ مسلمان کا لفظ یہودی کے ساتھ بدل دیں تو آپ جرمنی کے اس دور یا حالات میں پہنچ جائیں گے جو 1930ئ کی دہائی میں تھے۔” ڈیوڈ مِلر امریکا سے ہجرت کر کے ڈنمارک میں آباد ہیں۔
DDP کے ارکان پارلیمان مسلم نقاب کو سواستیکا سے تشبیہ دے چکے ہیں جبکہ قرآن کا موازنہ ہٹلر کی تحریر کردہ کتاب ‘مائن کیمپف’ سے کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اسلام ‘ہماری تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ’ ہے۔