نواز شریف صاحب کا کچھ روز قبل کا بیان ہے کہ قومی احتساب بیورو یعنی نیب ایک فوجی آمر نے بنایا تھا، اس لئے ہم اس کے ذریعے ہونے والے احتساب کو نہیں مانتے۔ وہ خود اور ان کی پارٹی کے کئی لیڈران کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 کو بھی نہیں مانتے کیونکہ ان کوبھی ایک آمر نے آئین میں شامل کروایا تھا تو حضور پھر آپ کون سے آئین کو مانتے ہیں؟ یہی بات تو پانامہ لیکس کے 20 اپریل کے فیصلے میں پیرا نمبر 124 میں جج صاحب نے فرما دی ہے کہ اگر آپ کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پسند نہیں تھے تو آپ کے پاس کئی بار اختیار آیا، آپ انہیں قانون سے نکال باہر پھینکتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔
قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستیں 60 کے قریب ہیں۔ اگر ماروی میمن نے کچھ ہاتھ پاؤں چلائے تو میاں صاحب کا مستقبل قریب میں یہ بیان بھی سننے کو مل سکتا ہے کہ خواتین کی مخصوص نشستیں مشرف جیسے آمر نے متعارف کروائیں تھیں، اس لیے وہ ان کو بھی نہیں مانتے۔ حضور آپ کونسے قانون کو مانتے ہیں؟
مسئلہ یہ ہے کہ آئین میں ترمیم ملک و قوم کی بہتری کی خاطر کبھی بھی آپ کا مقصد نہیں رہا۔ کسی فوجی آمر کی طرح آپ نے بھی آئین کی شقوں پر ہمیشہ ذاتی رائے دی ہے۔ یہی تو اس ائین کا المیہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں وہ تبدیلیاں کی گئیں جو مخصوص لوگوں کی پسند تھیں، ان لوگوں میں آپ خود بھی شامل ہیں مثلا باسٹھ اور تریسٹھ کا آرٹیکل شائد ضیاء الحق نے اسلئیے قانون میں متعارف کروایا تھا کہ جس ممبر پارلیمنٹ کی شکل انکو پسند نہ ہو اس کو اس شق کے تحت پارلیمنٹ سے نکال باہر کریں۔
ایک بڑا المیہ بھی ہے کہ جب جب آپ کو اقتدار ملا آپ نے اس طرف توجہ نہ دی کیوں کہ قانون کو تو آپ مانتے نہیں ہیں اور نہ آپ کوئی قانون بناتے ہیں کیوں کہ بادشاہت میں کون سا قانون ہوتا ہے۔ آپ کا کچھ روز قبل کا بیان ہے کہ آپ پہلے نظریاتی ہوں یا نہ ہوں اب نظریاتی ہوگئے ہیں- ماضی سے یہی پتہ لگتا ہے کہ نظریاتی لوگوں کو ہی قانون میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسی لیے آج سے پہلے آپ نے قانون میں کوئی تبدیلی کرنے کی زحمت نہیں کی کیوں کہ آپ تازہ تازہ نظریاتی ہوئے ہیں۔
یہ نظریاتی بخار بھی عارضی ہے، اگر عدالتوں نے کچھ کرم نوازی کر دی تو یہ بھی جلد ہی اتر جائے گا۔ کوئی بھی قانونی یا اسکی کوئی بھی شق آپ کو اس وقت تک اچھی لگتی ہے جب تک وہ آپ کو تکلیف نہ دے لیکن جیسے ہی وہ آپ کے خلاف استعمال ہونے لگے تو وہ آپ کو بری لگنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہی اصول احتساب بیورو اور 62 اور 63 پر لاگو ہوتا ہے اور بہت جلد شاید یہی اصول خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی لاگو ہوگا اور آپکو ماروی میمن کو وارننگ دینی پڑے گی۔
ماروی میمن کو بھی نظر آ گیا ہے کہ یہ جہاز ڈوب رہا ہے اور چھلانگ لگانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ ماروی میمن کو کوئی اندر کا آدمی بتا دیتا ہے کہ مستقبل میں حکومت کس کی بننی ہے، اس لیے وہ اس سلسلے میں بالکل غلط فیصلہ نہیں کرتیں۔
2013ء سے پہلے عمران خان نے ماروی میمن سے رابطہ کیا اور بقول حامد میر عمران خان نے انہیں کہا کہ “پی ٹی آئی میں آجاؤ، میں انقلاب لاؤں گا”، تو بقول حامد میر ، جواب ملا “چل جھوٹے”۔
اصولی طور پر خواتین کی مخصوص نشستیں بھی پارلیمنٹ کو کمزور کرتی ہیں کیو ں کہ یہ طاقتور خاندانوں کو بطور رشوت پیش کی جاتی ہیں۔ ایک اور سنی سنائی بات یہ ہے کہ غلام سرور کو پنجاب سے سینیٹر بنانے کے لیے جو فالتو ووٹ ڈالے گئے ان میں زیادہ تر پنجاب اسمبلی نون کی خواتین شامل تھیں۔ ایک اور ممبر خاتون قومی اسمبلی نے تو خود ٹی وی پر آ کر کہا کہ انہوں نے اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ خواتین کی یہ نشستیں بھی فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے متعارف کروائیں تھیں اور اس سے پہلے کہ نواز شریف صاحب یہ نشستیں بھی آپ کو تکلیف دینا شروع کردیں، ان کو بھی نکال بار پھینکیں۔ لیکن ابھی شاید آپ ایسا نہ کریں کیوں کہ یہ آپکو بے ضرر محسوس ہورہی ہیں، بالکل 62 اور 63 اور احتساب بیورو کی طرح۔
جب نواز شریف صاحب یہ بیان فرما رہے تھے کہ وہ تازہ تازہ نظریاتی ہوئے ہیں توسامنے بیٹھے رفقائے کار( درباریوں) کو نصیت فرمائی کہ وہ بھی نظریاتی ہوجائیں۔ شاید نواز شریف کے اندریہ ڈر ابھی بھی موجود ہے کہ انہیں نظریاتی کرکے سامنے بیٹھے رفقائے کا رکسی اور “نظریے “کے پیچھے نہ چل پڑیں جو کہ عین ممکن ہے کیونکہ ان کا ایک ہی نظریہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح حکومت میں رہنا ہے بالکل ماروی میمن کی طرح۔
نواز شریف کے اندر یہ ڈر بھی موجود ہوگا کہ انکے ساتھ سن انیس سو ننانوے والا ڈرامہ نہ ہو کہ “قدم بڑھائو نواز شریف” کے بعد جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو کوئی بھی نہ ہو لیکن اس سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ مسلم لیگ نون میں “ن” نواز کا نہیں بلکہ نطریاتی کا ہے۔