ترکی (یس ڈیسک) امریکہ نے ترکی سے کہا تھا کہ وہ کرد جنگجوؤں کے خلاف برسرپیکار ہونے کی بجائے اپنی توجہ داعش کے خلاف لڑائی پر مرکوز رکھے تاہم ترکی کے صدر اردوان کے ایک ترجمان نے کہا کہ عارضی جنگ بندی کا “سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔”
ترکی نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا کہ اس نے کرد جنگجوؤں کے ساتھ عارضی جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ شمالی شام میں اُس وقت تک اپنی فوجی کارروائیاں بند نہیں کرے گا جب تک تمام (سکیورٹی) خطرات کو ختم نہیں کر دیا جاتا۔
امریکہ نے ترکی سے کہا تھا کہ وہ کرد جنگجوؤں کے خلاف برسرپیکار ہونے کی بجائے اپنی توجہ داعش کے خلاف لڑائی پر مرکوز رکھے تاہم ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے ایک ترجمان نے کہا کہ عارضی جنگ بندی کا “سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔” انہوں نے کہا کہ اس وقت تک ان کو نشانہ بناتے رہیں گے جب تک وہ دریائے فرات کی مشرق کی طرف پسپائی اختیار نہیں کرتے۔”
اگرچہ ترکی نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس نے کردوں کے ساتھ عارضی جنگ بندی سمجھوتے پر اتفاق کیا ہے تاہم بدھ تیسرا دن تھا جب دونوں فریقوں کے درمیان لڑائی کی کوئی اطلاعات نہیں ملیں جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے دونوں حلیفوں نے کم ازکم وقتی طور پر لڑائی روکنے کے مطالبات پر توجہ دی ہے۔
ترکی نے گزشتہ ہفتے داعش کے عسکریت پسندوں اور امریکہ کے حمایت یافتہ کرد جنجگوؤں کے خلاف فوجی کارروائی کی۔ ترکی کی حکومت کا ماننا ہے کہ ان کرد جنگجوؤں کے ترکی کے اندر سرگرم کردستان ورکرز پارٹی کے عسکریت پسندوں سے روابط ہیں۔
ترکی کی فورسز اور کردوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے شام کی پہلے سے پیچیدہ صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے جہاں شامی حکومت کو ایران، روس اور لبنان کی حزب اللہ ملیشیاء کی حمایت حاصل ہے جبکہ مغربی ممالک شامی باغیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ “جب تک ہماری سرحدوں اور ہمارے شہریوں کے لیے خطرات ختم نہیں ہو جاتے اس وقت تک ہمارا آپریشن جاری رہے گا۔”
قبل ازیں بدھ کو ایران نے شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترک فورسز کی مسلسل موجودگی سے تنازع کو مزید بڑھاوا ملے گا۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے ترکی کی پیش قدمی کو شام کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اس طرح کا بیان گزشتہ ہفتےشام کی وزارت خارجہ بھی دے چکی ہے۔
ترک فورسز کی کارروائی کی وجہ سے داعش کو جرابلس خالی کرنا پڑا جس کے بعد جرابلس کے جنوب میں موجود ان کرد فورسز کے ساتھ بھی ترک فورسز کی جھڑپیں شروع ہو گئیں جنہوں نے منبج شہر کا کنٹرول اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کیا تھا۔ امریکہ کے ایک سینیئر جنرل نے منگل کو کہا تھا کہ کرد فورسز دریائے فرات کی مشرق کی طرف منتقل ہو گئی ہیں جو منبج سے دور ہے اور امریکہ کو توقع ہے اس اقدام کی وجہ سے ان جھڑپوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
مشرق وسطیٰ میں آپریشن پر نظر رکھنی والی امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے منگل کو پینٹاگان میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ “کرد فورسز کا وہ حصہ جو ایس ڈی ایف (سرئین ڈیموکریٹک فورسز) کے ساتھ منسلک ہے وہ اس وقت دریائے فرات کی مشرقی طرف ہیں جو عہد انہوں نے ہمارے ساتھ کیا وہ اس پر قائم ہیں”۔
ایس ڈی ایف بنیادی طور پر کرد جنگجوؤں پر مشتمل ہے تاہم شامی عرب، ترکمن جنگجوؤں کے علاوہ کئی دوسرے بھی اس جنگجو گروپ میں شامل ہیں۔
ووٹل نے کہا کہ ایس ڈی ایف کے وہ ارکان جو منبج کے ںواح میں ہیں اور ان علاقوں کا دفاع کر رہے ہیں جو داعش سے واگزار کروائے گئے وہ کرد نہیں ہیں اور وہ ” زیادہ تر ان فورسز پر مشتمل ہیں جن کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔” ووٹل نے کہا کہ شام میں ترک فورسز اور امریکہ کی حلیف کرد فورسز کا کردار اس خطے میں داعش کے خلاف لڑائی میں ” اہم ” ہے۔
شمالی شام میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد مغربی ممالک کی اس حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ ترکی امریکہ کی حمایت یافتہ کرد فورسز ‘کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس’ ( وائی پی جی) کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ ’وائی پی جی‘ کو داعش کے خلاف لڑائی میں اپنا سب سے زیادہ موثر اتحادی قرار دیتا ہے جب کہ ترکی کا مطالبہ ہے کہ ’وائی پی جی‘ اس سرحدی علاقے سے نکل جائے جو داعش کے عسکریت پسندوں سے واگزار کروایا گیا ہے۔