تحریر: سید سبطین شاہ
ناروے میں پاکستانیوں کی تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے اور یہ لوگ تقریباً چالیس قبل ناروے آکر آباد ہوئے ۔ اکثر لوگوں کا تعلق ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں سے ہے۔ ان لوگوں میں سے اکثر کے پاس نارویجن شہریت ہے ۔ ان لوگوں کی اب تیسری نسل ہے جو ناروے کے معاشرے میں اہم کردارادا کررہی ہے۔ سترکی دہائی میں جب یہ لوگ ناروے آئے ، اکثر کا ارادہ یہ تھا کہ یہاں پانچ سے دس سال کام کرنے کے بعد واپس پاکستان چلے جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ ان میں سے اکثر لوگ یہاں کے ہی ہو کررہ گے۔ ان لوگوں کااصل مقصد اپنے خاندانی اور ملکی معاشی حالات کو بہتر بنانا تھا لیکن معاش کے ساتھ ساتھ یہ لوگ اپنے آبائی وطن پاکستان کو نہیں بھول سکے۔
نہ صرف اپنے علاقے کی ترقی کے لیے اہم کرداراداکیا بلکہ ناروے کی ترقی میں بھی پاکستانیوں کا کرداربھی اہمیت کاحامل ہے جس کا نارویجن معاشرہ بھی معترف ہے۔ معاشی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ پاکستانی اپنی ثقافت کو بھی نہیں بھولے۔ہرسال مختلف حوالوں سے پاکستان کے ایام ناروے میں منائے جاتے ہیں جو ان لوگوں کی پاکستان کے ساتھ محبت کا ثبوت ہے۔ پورے سال میں سب سے اہم دن ماہ اگست میں جشن آزادی پاکستان کے ایام ہوتے ہیں۔ سفارتخانے کی یوم آزادی کی سرکاری تقریب اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے لیکن مختلف تنظیموں کی طرف سے نجی تقریبات زیادہ پرجوش ہوتی ہیں ۔ان تقریبا ت کا آغاز سترکی دہائی سے پاکستانیوں کی ناروے آمد کے ساتھ ہوگیاتھا۔
اس زمانے میں پاکستانیوں نے اپنی یونین بنائی اور پاکستانی ثقافت کو اجاگر کرنے کی جدوجہدکی۔اس زمانے سے ہی اگست کے مہینے کے آغازمیں ہی ناروے کے دارالحکومت اوسلومیں گہماگیمی شروع ہوجاتی ہے بلکہ ان تقریبات کی تیاریاں چند ماہ قبل ہی شروع ہوجاتی ہیں ۔نارویجن لوگوں کے علاوہ پاکستان اور دیگرممالک سے سیاسی، سماجی اورثقافتی شخصیات بھی ان تقریبات میں حصہ لیتی ہیں ۔ ناروے کے اعلیٰ حکام بھی ان پروگراموں میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی جشن آزادی پاکستان کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔راقم نے بھی اس ماہ کے آغاز کے ساتھ ہی ناروے کے دارالحکومت اوسلومیں قدم رکھا تاکہ تقریباًچھ سال کے وقفے کے بعد ایک پھر ان تقریبات کا مشاہدہ کرسکے۔
راقم نے آخری بار اوسلومیں چودہ اگست کی تقریبات کامشاہدہ تقریباً نصف دہائی قبل کیا۔نصف دہائی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔جس طرح پانچ چھ سال میں دنیاکے حالات تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں، ناروے کے اندربھی تبدیلیاں آئی ہیں۔اب لوگوں کی سوچ روایات سے ہٹ رہی ہے۔نت نئے افکاراور نظریے سامنے آرہے ہیں۔ ان حالات میں اوسلومیں بھی کچھ لوگوں کے اندر بھی فکرپیداہورہی ہے کہ کیوں نہ حالات کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کیاجائے؟ بالکل درست ہے، جس طرح پاکستان کو نئی دنیااورنئی صدی کے پیچیدہ چیلنج درپیش ہیں ، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ باہر کی دنیامیں پاکستان کا سافٹ امیج اجاگرکیاجائے جس کے لیے روایتی اندازسے ہٹ اہل علم و دانش کی صلاحیتوں سے استفادہ کیاجائے۔اب ناروے میں جشن آزادی کی تقریبات کے حوالے سے سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیایہ تقریبا ت پاکستان کاسافٹ امیج اجاگرکررہی ہیں یاروایتی سلسلہ جاری ہے۔ یہ سوال راقم نے گذشتہ چند دنوں کے دوران اوسلومیں کمیونٹی کے چیدہ چیدہ افراد کے سامنے اٹھایا۔ اوسلومیں جس طرح مختلف اندازمیں جشن آزادی کی تقریبات کی تیاریاں ہورہی ہیں۔
اس طرح لوگوں کاجواب بھی مختلف تھا۔البتہ یہ احساس یکساں دیکھاگیاکہ اہل علم و دانش ہی پاکستان کا سافٹ امیج اجاگرکرسکتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو بعض نارویجن نوجوانوں کا حوالہ دیاکہ وہ پاکستان سے آنے والے کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ سیاستدان پاکستان کے حالات خراب کرنے کے ذمہ دارہیں اورہم نہیں چاہتے ہیں کہ وہ ناروے آکر ہمیں لیکچردیں۔ ان حالات کو دیکھ کر راقم کوکچھ کافی مایوسی بھی ہوئی کہ اس بارنارویجن پاکستانی کمیونٹی اس موضوع پرمنقسم ہے اور یہ ایک تنازعہ سا بن گیاہے کیونکہ نوجوانوں کے جواب میں ایک نارویجن پاکستانی سیاستدان نے بھی سوال اٹھایاہے کہ جو پاکستان سے آنے والے سیاستدانوں کو کرپٹ کہتاہے ، وہ ان کے خلاف ثبوت پیش کرے۔اس واقعے کا ذکراتفاقاً آگیاالبتہ راقم کا مقصد ہرگزیہ نہیں کہ وہ کسی متنازعہ موضوع کو اٹھائے بلکہ سوال تو یہ ہے کہ پاکستان کاسافٹ امیج کس طرح اجاگرکیاجاسکتاہے اور وہ کون کرے گا؟۔
جیسا کہ پہلی سطورمیں تذکرہ کیاجاچکاہے کہ اس سوال کو اوسلو میں کئی لوگوں کے سامنے رکھاکہ کیا جشن آزادی پاکستان کی تقریبات کے ذریعے پاکستان کا سافٹ امیج اجاگرہورہاہے یا نہیں۔ اس دوران حالات کا گہرے اندازمیں مطالعہ کیاگیا۔بلاخر لوگوں سے بات کرکے اور حالات کو دیکھ کریہ بات سامنے آئی کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنھوں نے جشن آزادی کو روایت سے ہٹ مناناشروع کیاہواہے۔ لوگوں نے بتایاکہ پاکستان یونین ناروے جس کی قیادت چوہدری قمراقبال کررہے ہیں ، گذشتہ کئی سالوں سے جشن آزادی کی تقریب کے لیے پاکستان سے اہل علم و دانش کو مدعو کرکے پاکستان کا سافٹ امیج اجاگرکررہی ہے۔ پاکستان یونین ناروے نے پچھلے سال دیگرمہمانوں کے علاوہ پاکستان کے معروف دانشوراورلکھاری حسن نثار کو مدعوکیا اور اس سے قبل اس یونین نے پاکستان کے متعدل عالم اور مفکرجاوید احمدغامدی کو دعوت دی تھی۔ یہ اہل فکر ودانش ہی ہیں جن کی معاشرے پرگہری نظرہوتی ہے جن کی صلاحیتوں سے لوگوں اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور معاشرے کو سنوارنے کے لیے استفادہ کرتے ہیں۔
اس بار بھی پاکستان یونین ناروے نے اعلیٰ تعلیم سے بہرہ مند شخصیات اورماہرین کو مدعوکیاہے۔ پاکستان یونین ناروے کی تقریب کے بارے میں لوگوں نے یہ بھی بتایاکہ اس تقریب میں لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ بڑے شوق سے جاتے ہیں تاکہ ان کے بیوی بچے بھی اس تقریب میں شریک شخصیات سے کچھ سیکھ سکیں۔اگرچہ اس وقت جشن آزادی مختلف تنظیمیں منارہی ہیں لیکن پاکستان یونین ناروے وہی یونین ہے جس نے سترکی دہائی میں جشن آزادی پاکستان کی تقریبات کاآغاز کیا اور اب مختلف اندازمیں ان تقریبات کے ذریعے پاکستان کاسافٹ امیج اجاگرکررہی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے لوگوں اورتنظیموں کی حوصلہ افزائی اورمعاونت کی جائے جو پاکستان کاسافٹ امیج اجاگر کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور خاص طورپر بیرونی دنیا میں پاکستان کامثبت چہرہ متعارف کروارہے ہیں۔
تحریر: سید سبطین شاہ