تحریر: سید سبطین شاہ
س بار اپنے دورہ ناروے کے دوران راقم کی کچھ منفرد سیاسی و سماجی شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک ملاقات تو ان سے ہوئی جوانتہائی دلچسپ شخصیت کے حامل سیاستدان ہیں۔ان کانام تو بہت سناتھا لیکن یہ ان سے بلمشافہ پہلی ملاقات تھی۔ اگرچہ وہ اپنے شعبے کے لحاظ سے توطبیب ہے لیکن وہ ساتھ ہی ایک منفرد سیاستدان بھی ہیں کیونکہ وہ دوسرے سیاستدانوں سے بہت ہی مختلف ہیں۔ ایک لفظ جو راقم نے ان کی زبان سے تسلسل کے ساتھ سنا، وہ لفظ تھا،’’ تابعدار‘‘ اوردوسری ایک اہم خوبی جوان میں نظرآئی ہے جو بالکل ہی منفردہے ،وہ دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھنا اور ان کو احترام دینا ہے۔
دوچھوٹی چھوٹی تقریبات میں ان کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک تقریب وسیم شہزاد اوران کے بھائی خرم شہزاد کی عمرے سے واپسی پرمنائی گئی اور دوسری تقریب تعزیتی تھی جو ممتازعالم دین مفتی زبیرتبسم کی رہائشگاہ پر منعقد ہوئی اور اس کے دوران ان کے مرحوم بھائی خالد جمیل اختر کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔ دونوں تقریبات کے بعد جب وہ اپنی گاڑی میں دوستوں کو ان کے گھروں تک ایک ایک کرکے اتارتے گئے تو انھوں نے گاڑی سے اترکر گلے مل کر اور مصافحہ کر کے ہرکسی کو خدا حافظ کہا۔ یہ ہیں، رکن اوسلو سٹی پارلیمنٹ اور اوسلو۔ گرورود ضلع کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر مبشر بنارس۔
پاکستان میں گجرات کی تحصیل سرائے عالم گیرمیں ایک چھوٹاساقصبہ ’’پران‘‘ ان کا آبائی گاؤں ہے۔ان سے ملانے کا سہرا پاک۔ناروے فورم کے چیف کوآرڈی نیٹر اوراوسلوکی فعال سماجی شخصیت چوہدری اسماعیل سرور کے سر ہے۔ان ہی ملاقاتوں کے دوران ضلع کونسل گرورود۔اوسلوکے رکن چوہدری محمدقاسم ، کاروباری شخصیت راجہ عاشق حسین، ہیومن سروسز ناروے کے چوہدری غلام سرور اورپی ٹی آئی کے چوہدری پرویزاخترسے بھی تعارف ہواجو ڈاکٹر مبشر کے قریبی دوستوں میں سے ہیں جنہیں وہ اپنا بھائی کہتے ہیں۔ حقیقت میں یہ کچھ ہم خیال افراد خصوصاً نوجوان دوستوں کی ایک ٹیم ہے جو بڑے فعال انداز میں اپنی سماجی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ڈاکٹرراجہ مبشر بنارس اوران کے بھائی ڈاکٹر شہزاد بنارس دونوں ہی ملنسار اور کمیونٹی سے مرتبط ہیں۔ فیس بک پر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ان کے نیٹ ورک میں شامل ہیں۔
ان کے مضبوط نیٹ ورک کی بدولت انھوں نے ناروے کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔انھوں نے مہم بھی منفرد انداز میں چلائی اورکامیابی بھی بھرپورحاصل کی ۔ ان کے مقابلے میں کچھ کہنہ مشق سیاستدانوں کے لیے اپنی ساکھ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گئی ہے ۔ انتخابات جیتنے کے بعد بھی ان کی سماجی سرگرمیوں میں کمی نہیں ہورہی۔ راقم کو نارویجن پاکستانی سیاستدانوں کے بارے میں آگاہی ہے اور ان کے بارے میں لوگوں کے ملے جلے خیالات ہیں۔ کچھ سیاستدانوں کے بارے میں لوگوں کے خیالات اچھے نہیں پائے گئے البتہ کبھی کبھی یہ بھی ہوتاہے کہ انسان پرانے چہروں سے تنگ آکر شاید ایسی باتیں کرنے لگتاہے لیکن کسی کی انسانی خدمات کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ان سیاستدانوں کواس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ناروے یورپ میں ہے ، جہاں لوگوں نے ایک لمبا عرصہ جدوجہد کرنے کے بعدانفرادی آزادی حاصل کی ہے۔
اب لوگ اس آزادی کو ہر صورت محفوظ رکھناچاہتے ہیں۔ یہاں یہ محسوس ہواہے کہ یقیناً ڈاکٹر مبشریہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح لوگوں کا دل جیتاجاسکتاہے اوران کی آزادی اوراحترام کو ملحوظ خاطررکھاجاسکتا۔ اسی لیے ڈاکٹر مبشر کا لوگوں سے رویہ کچھ اورہی طرح دیکھنے میں آیا۔ راقم نے یہ سارے مناظراپنی آنکھوں سے دیکھے اور ان سے ملاقات کے بعدان کے بارے میں کچھ لوگوں سے بھی دریافت کیا۔اور بعد میں فون کرکے ان سے پوچھاکہ آپ کواتنے اچھے اخلاق کا ورثہ کہاں سے ملا ہے؟ موصوف کا جواب تھا، ’’بزرگوں نے یہ سب کچھ سیکھایا ہے۔‘‘
ان کے والد راجہ بنارس اور چچاراجہ محمد عارف وہ پہلے پہلے پاکستانی ہیں جو ستر کی دہائی میں ناروے آئے تھے۔ ناروے میں ستر کی دہائی کے پاکستانیوں کی تنظیم پاکستان ویلفیئریونین کے بانی مرحوم میاں خان دھکڑ مرحوم اورمرحوم چوہدری گلزار احمد مہمندچک اور ان جیسے کچھ لوگ دارفانی سے کوچ کر چکے ہیں لیکن بہت سے حیات ہیں۔ ان جیسے لوگوں کے بارے میں اکثرراقم کا پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین اور ہردلعزیز شخصیت چوہدری قمراقبال، بھائی نویدخاور، ملک محمد پرویز آف بدر مرجان اور چوہدری جہانگیر نواز گلیانہ کے ساتھ تذکرہ رہتا ہے۔ یہ وہ زیرک لوگ تھے جنھوں نے منتشر افراد کو یکجا کر کے نارویجن پاکستانیوں کی ایک سوسائٹی بنائی جوآج ایک مضبوط کمیونٹی ہے۔
ناروے میں قیام کے دوران ایک اورسیاستدان سے بھی ملاقات ہوئی جن کا نام سیدیوسف گیلانی ہیں۔ یوسف گیلانی اپنی کوششوں اور اپنے دوستوں کے تعاون سے آج دریمن شہر کے ڈپٹی میئرکی کرسی پر فائز ہیں۔ ان کے اعزازمیں گذشتہ دنوں ایک تقریب بھی منعقد ہوئی جس میں ان کے دوست احباب کے علاوہ ان کے والد ڈاکٹر سیداظہر گیلانی بھی شریک ہوئے۔ اظہر گیلانی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعدساٹھ سال کی عمرمیں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرناشروع کی۔یہ سچ ہے کہ تعلیم کے حصول کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی انسان کی کوشش رائیگاں نہیں جاتی۔
آخرمیں یہ بات بھی گوش گزارکرنی ضروری ہے کہ اچھی سیاست کرنااورلوگوں کوراضی رکھناآسان کام نہیں لیکن یہ بات بھی مسلم ہے کہ اللہ کوراضی کرنے کے لیے اس کی مخلوق راضی رکھنابہت مقدم ہے ۔ ہمیں یہ محاورہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ سیاست پھولوں کا نرم بستر نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ڈاکٹر مبشر، یوسف گیلانی اور ان کے ساتھیوں کو مزید کامیابیوں سے نوازے اور انہیں اپنے اعلیٰ اخلاق اور انسانی اقدار اور اصولوں پر قائم رکھے۔ امین
تحریر: سید سبطین شاہ