اوسلو (سید حسین) پی ایچ ڈی سکالر اور تجزیہ کار سید سبطین شاہ جو ان دنوں یورپ میں تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں، نے کہاہے کہ حکومت پاکستان کو نارویجن پاکستانیوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاناچاہیے۔ پاکستانی ناروے میں گذشتہ چالیس سالوں سے مقیم ہیں اور تقریباً ہرشعبے میں وسیع تجربات رکھتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں، جن کی محنت اور ایمانداری کی تعریف خود نارویجن بھی کرتے ہیں۔ وائس آف اوسلو ایف ایم ریڈیو کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ اس وقت نارویجن پاکستانی سیاست اور کاروبار سمیت متعدد شعبہ ہائے زندگی میں کارفرما ہیں۔ پروگرام کے میزبان عزیزالرحمان چشتی تھے۔
ان کے علاوہ پروگرام میں پی پی پی ناروے کے جنرل سیکرٹری مرزا ذوالفقار، کاروباری نوجوان شخصیت مرزا تیمورثقلین اورصحافی ثناء اللہ بھی شریک ہوئے۔سیدسبطین شاہ نے مزید کہاکہ ناروے کی ترقی میں ان کا اہم کردار ہے۔ سینکڑوں نارویجن ڈاکٹرز اور انجینئرز اور دیگر شعبوں کے ماہرین موجودہی ہیں ، جن کاپس منظر پاکستانی ہے۔
بہت سے متعدد سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے سربراہ بھی ہیں۔ اراکین مقامی اور قومی پارلیمنٹ بھی ہیں۔انھوں نے کہاکہ ان باصلاحیت پاکستانیوں کی تجربات سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں استفادہ کرکے پاکستان کو ترقی دی جاسکتی ہے۔سید سبطین شاہ نے مزید کہاکہ ناروے میں رہنے والے پاکستانی خاص طور پر نئی نسل جن کا اب وطن ناروے ہے، کو بھی چاہیے کہ ناروے میں تعلیم کے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔
اگرچہ بہت سے لوگوں نے تعلیم جیسے مواقع سے فائدہ اٹھایاہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ، جو وقت کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ ان کے لیے بھی مشورہ ہے ، اپنے کام کے ساتھ ساتھ تعلیم دوبارہ شروع کرلیں تو اچھی بات ہوگی۔ کسی بھی انسان کی ترقی کے لیے سب سے اہم چیز آزادی ہوتی ہے ۔ آزادی تو نارویجن پاکستانیوں کو حاصل ہے اور وہ اس سے جائز فائدہ اٹھا کر معاشرے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مرزاذوالفقار نے ناروے اور پاکستان میں صحافتی اور سماجی حوالے سے سید سبطین شاہ کی خدمات کو سراہا۔ انھوں نے وائس آف اوسلوکے میزبان عزیزالرحمان کی کاوشوں کی بھی ستائش کی۔ سوالوں کا جواب دیتے ہوئے سید سبطین شاہ نے فرقہ واریت اور پاکستان کی قومی سلامتی کے بارے میں اپنی ایم فل کی سطح پر تحقیق پربھی روشنی ڈالی اور اپنے ڈاکٹریٹ مقالے کے بارے میں سامعین کو بتایا۔ کسی سامع کی طرف سے ڈاکٹریٹ سطح کی تعلیم کے طریقہ کار کے بارے میں بھی سوال کیا گیا جس کا سید سبطین شاہ نے آسان الفاظ میں جواب دیا۔