counter easy hit

اس کی تقدیر میں حضور نہیں

تقدیر کوئی عجب شے نہیں جو زبردستی ٹھونسی گئی ہو نہ ہی تقدیر کا مطلب انسانی وجود پر کوئی حکم لاگو کرنا یا اس کی زندگی کی فائل پر اس کے اعمال کی مہر ثبت کرنا ہے۔ تقدیر تو انسانی وجود میں پنپنے والی صلاحیتوں کو عقل، شعور اور وجدان کی مدد سے کھوجنا اور استعمال میں لانا ہے۔ ہر فرد کی شخصیت میں عناصر ترکیبی کی تال میل مختلف ہے۔ اگر وہ ان سے آگاہی حاصل کر لے تو مخصوص شعبۂ حیات میں کمال دکھا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اپنے اندر جھانکنے مطلب اپنے آپ کو دریافت کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ جس نے اپنے آپ کو جان لیا اُس نے اپنے ربّ کو جان لیا کا مطلب ہی یہی ہے کہ قدرت اُس سے جو کام لینا چاہتی ہے وہ اُس سے آگاہ ہو کر کائنات کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے گا۔

جس طرح انسان خارجی اور داخلی شخصیت رکھتا ہے اسی طرح کائنات بھی ظاہر اور باطن میں بٹی ہوئی ہے۔ انسان اور کائنات ایک ایسی عمارت کی طرح ہیں جن کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، تن بھی ہے اور من بھی، جسم بھی ہے اور روح بھی۔ ظاہر کا علم مشاہدے کا متقاضی ہے جب کہ باطن کی دنیا بڑی عجیب ہے۔ وہاں کا احاطۂ اِدراک لامحدود ہے اس لئے وہاں روح کا راج ہے جو خود لامحدود اور لافانی ہے۔ روح کے اسرار سمجھنے کے لئے اور من کے اندر جھانکنے کے لئے تیسری آنکھ یعنی وجدان کو وسیلہ کرنا پڑتا ہے جو ظاہر اور باطن کے درمیان رابطے کا پل بھی ہے اور اشیاکی حقیقت تک رسائی کا ذریعہ بھی۔ اقبال نے وقت کی نبض کو محسوس کرتے ہوئے بدلتے حالات کے مطابق اپنے نظریات کو ڈھالا لیکن ان کی نظر آئینہ اور فکر کا زاویہ ہمیشہ وجدان کے نور سے مزین رہا۔ دل کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی روشنی سے سامنے کے منظر کا مطلب اخذ کرتے رہے۔ صوفی عشق کا مسافر اور عشق کا سراغ وجدان کا مرہونِ منت ہے۔ اقبال بھی عشق کا پیام بر ہے اور عشق کو ایمان کا درجہ دیتا ہے۔ عشق اور ایمان کا مسافر وجدان کے پُل پر سے گزر کر منزل تک پہنچتا ہے۔ یوں اقبال ایک ایسے عظیم صوفی کی حیثیت سے سامنے آتا ہے جس پر وجدانی آنکھ نے اسرارِ حیات و کائنات کے راز افشا کر رکھے تھے۔ انہوں نے کہیں بھی عقل کو رد نہیں کیا مگر اس کو وجدان کی تابع داری کی طرف راغب کیا کیوں کہ عقل و خرد کا تمام علم حواس اور مشاہدے تک محدود ہے جب کہ وجدان ان دیکھی دنیائوں تک رسائی رکھتا ہے۔ اقبال کے نزدیک سائنسی ایجادات بھی وجدانی کیفیات کے تابع ہوتی ہیں۔ نیٹشے نے سقراطی اور افلاطونی نظریۂ عقل کو رد کرتے ہوئے جذباتی اور جمالیاتی کیفیات کو عقلی کیفیات سے اعلیٰ گردانتے ہوئے وجدان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اقبال برگساں کے نظریۂ عقل سے متاثر ہو کر عقل کو مادی اور مکانی دنیا کے معاملات کو سلجھانے کی تلقین کے ساتھ یہ وارننگ بھی دیتا ہے کہ وہ باطنی زندگی اور اندرونی کیفیات تک رسائی کا دعویٰ اور کوشش نہ کرے کیوں کہ جذبات و احساسات سے وابستہ زندگی کے تمام معاملات کا علم صرف اور صرف وجدان کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح وجدان سربراہ ہے اور عقل زندگی کی خادم۔ اسی لئے وہ خدا سے دلِ بینا کی طلب کرتا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ آنکھ کا نور دل کا نور نہیں اور زندگی دل کے نور سے منور ہوتی ہے۔ خرد یعنی عقل اور نظر یعنی وجدان کے فرق کو واضح کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
تِرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
خرد نے مجھ کو عطا کی نظرِ حکیمانہ
سِکھائی عشق نے مجھ کو حدیث ِ رندانہ
اقبال جب ’کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا بھی‘ کہتا ہے تو وہ صرف ظاہری آنکھوں اور عقل کی بات نہیں کرتا۔ وہ فطرت کو خرد کے روبرو کرنے کا مشورہ ضرور دیتا ہے مگر اُسے عشق کے پیغام سے منور ہونے پر بھی متفق ہے یعنی علم یا عقل کو اگر ایک وجود تسلیم کر لیا جائے تو اس میں موجود روح کو عشق کہیں گے اور یہ حقیقت مسلّم ہے کہ روح کے بغیر وجود نامکمل اور مردہ ہوتا ہے کیونکہ:
عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقام صفات عشق تماشائے ذات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب
اقبال نے عقل اور عشق کے درمیان ایک خوب صورت مکالمے کے ذریعے دونوں کے دائرہ کار کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جدید فلسفۂ وجدانیت سے بھی تضادات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ عشق کا جواب دیکھئے:
رازِ ہستی کو تو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
ہے تجھے واسطہ مظاہر سے اور باطن سے آشنا ہوں میں
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے تو خدا تو خدا نما ہوں میں
کس بلندی پہ ہے مقام مرا عرش ربِّ جلیل کا ہوں میں
مولانا روم کے مطابق نور کے کئی مدارج ہیں۔ عقل بھی نور کی ایک قسم ہے لیکن عشق کا درجہ بہت بلند ہے اس لئے جب عقل اس کے مقابل آتی ہے تو بے وقعت ہو جاتی ہے کیوں کہ عشق میں جو جنون، ولولہ اور اثر آفرینی ہے عقل اُس سے دور ہے۔ تبھی آتشِ نمرود میں بلا خوف و خطر کود پڑنے والے عشق کو اقبال ابد کے نسخۂ دیرینہ کی تمہید، عقل کو فانی اور عشق کو لافانی ہمیشہ زندہ جاوید کہتا ہے۔ عقل اور عشق میں لڑائی نہیں مدارج کا فرق ہے۔ عقل اس کی غمگسار ہے، ہمراہی ہے لیکن محبوب کے دیدار کا شرف صرف عشق کو حاصل ہے کیوں کہ جہاں عقل کی حدود ختم ہوتی ہے وہاں سے وجدان اور وحی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ باطن تک رسائی صرف وجدان کے ذریعے ممکن ہے۔ صوفیاء وجدان کو وسیلہ بنا کر حقیقت ِ مطلقہ تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ عشق خدا کا کرم ہے، انسانی وجود میں پنہاں معجزہ ہے، کرم کے سامنے تمام منطقی دلیلیں ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہیں۔ اسی طرح اقبال عقل کی اہمیت کے حوالے سے اپنے مرشد مولانا روم سے پوری طرح متفق ہے۔ مولانا روم کے مطابق عقل ایک حد تک عشق کی ہم نوائی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے مگر اس کی رسائی منزل تک بالکل نہیں بلکہ منزل سے بہت پہلے ایک مقام پر اس کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ عقل کا کام بیمار کو طبیب کے پاس لے جانا ہے۔ جب یہ مرحلہ آ جائے تو بیمار کو خود کو طبیب کے حوالے کر دینا چاہئے اور عقل کو خیرباد کہہ دینا چاہئے کیوں کہ اگلا سفر عقل کے بس کی بات نہیں اس لئے کہ علت و معلول میں جکڑی ہوئی عقل میں دیدار کو جذب کرنے کی خاصیت ہی موجود نہیں۔ اس لئے اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں

بشکریہ,جنگ

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website