اسلام آباد(ایس ایم حسنین) فرانس کے صدر ایمانوائل ماماکروں گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے اپنے متنازعہ بیانات پر عالمی رد عمل کے بعد اپنے موقف کی وضاحتیں دے رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کا ملک ‘اسلام نہیں بلکہ شدت پسندی’ کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے فنانشل ٹائمز کے ایک مضمون کا جواب دیتے ہوئے ایمانوائل ماماکروں نے کہا کہ ان کا بیان غلط انداز میں پیش کیا گیااور اس کے بعد اخبار کی ویب سائٹ نے مواد ہٹا دیااخبار میں شائع ہونے والے مراسلے میں ایمانوئل میکرون نے کہا کہ برطانوی اخبار نے ان پر ‘فرانسیسی مسلمانوں کو انتخابی مقاصد کے لیے بدنام کرنے اور خوف اور شبہات کی فضا کو فروغ دینے’ کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘میں کسی کو یہ دعوی نہیں کرنے دوں گا کہ فرانس، یا اس کی حکومت مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کو فروغ دے رہی ہے’۔ فنانشل ٹائمز کے نمائندے کی جانب سے لکھے گئے آرٹیکل میں الزام لگایا گیا کہ ایمانوئل میکرون کی ‘اسلامی شدت پسندی’ کی مذمت دراصل فرانسیسی مسلمانوں کے لیے ‘مخالفانہ ماحول’ کو فروغ دینا تھا۔ بعد ازاں فنانشل ٹائمز نے مذکورہ مضمون کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا اور اس کی جگہ تصحیح شائع کہ کہ مضمون میں ‘حقائق کی غلطیاں تھیں’فرانس میں گستاخانہ خاکے سے متعلق صدر ایمانوئل میکرون کے متنازع بیان پر مسلم دنیا میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ اور احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔واضح رہے کہ مظاہروں اور بائیکاٹ کے بعد فرانسیسی صدر نے ہفتے کے آخر میں الجزیرہ نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ‘وہ اب سمجھے کہ خاکے بعض لوگوں کے لیے اس قدر تکلیف دہ ہوسکتے ہیں’۔ لیکن 2015 سے فرانس میں شدت پسندوں کے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے رواں ہفتے اپنے خط میں متنبہ کیا کہ فرانس میں اب بھی انتہا پسندی کی’ بنیادیں’ موجود ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ بعض اضلاع اور انٹرنیٹ پر بنیاد پرست اسلام سے وابستہ گروہ ہمارے بچوں کو جمہوریت سے نفرت کا درس دے رہے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کے قوانین کو نظرانداز کریں۔انہوں نے کہا تھا کہ حکومت فرانس میں چرچ اور ریاست کو باضابطہ طور پر الگ کرنے والے 1905 کے قانون کو مستحکم کرنے کے لیے دسمبر میں ایک بل پیش کرے گی۔ انہوں نے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ پر سخت کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ فرانسیسی صدر کہلانے والے فرد کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ میکرون کو ذہنی علاج کی ضرورت ہے۔
فرانسیسی صدر کا متنازع بیان
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک قرار دیا گیا تھامذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو ‘ہیرو’ اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو ‘مجسم’ بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا۔
برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ نیوز کی رپورٹ کے مطابق پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔
فرانسیسی نیوز ویب سائٹ دی لوکل کی رپورٹ کے مطابق استاد کی یاد میں منعقدہ تقریب میں فرانس کے صدر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’ہم خاکے بنانا نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
ایک روز قبل ہی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب پر مسلمانوں سے متعلق متنازع پالیسیوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترک صدر نے اناطولیہ کے شہر قیصری میں ٹیلی ویژن پر خطاب میں کہا تھا کہ ایسے سربراہ مملکت کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں جو مختلف مذہبی گروہوں کے لاکھوں ممبروں کے ساتھ اس طرح سلوک کرتا ہو: سب سے پہلے انہیں اپنا دماغی معائنہ کروانا چاہیے۔خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلام مخالف بیان سامنے آیا ہو، قبل ازیں رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے فرانس کی سیکیولر کے “بنیاد پرست اسلام” کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی اور اس دوران اسلام مخالف بیان بھی دیا تھا۔
ایمانوئیل میکرون نے فرانس کی سیکیولر اقدار کے ‘بنیاد پرست اسلام’ کے خلاف ‘دفاع’ کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے سعودی عرب، قطر اور ترکی جیسے ممالک کا نام لیتے ہوئے، اس بات پر زور دیا تھا کہ فرانس میں ‘اسلام کو غیر ملکی اثرات سے آزاد’ کروانا ضروری ہے۔
ان کے مطابق اس مقصد کے لیے، حکومت مساجد کی غیر ملکی مالی اعانت کے بارے میں جانچ پڑتال کرے گی اور اماموں کی تربیت کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے یا فرانسیسی سرزمین پر غیر ملکی مبلغین کی میزبانی پر پابندی لگائے گیجس پر ردِ عمل دیتے ہوئے مصر کے ممتاز اسلامی ادارے جامعۃ الازھر کے اسکالرز نے ”اسلام پسند علیحدگی” کے حوالے سے فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون کے بیان کو ‘نسل پرستانہ’ اور ‘نفرت انگیز’ تقریر قرار دیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ فرانسیسی ہفتہ وار میگزین چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے