counter easy hit

نوٹوں پر پابندی سے دیہی علاقوں کی معیشت بھی متاثر

Notes the moratorium on rural economy

Notes the moratorium on rural economy

انڈيا میں حکومت نے کچھ دن پہلے 1000 اور 500 روپے کے کرنسی نوٹوں پر اچانک پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد سے حکومت بیشتر بینکوں اور اے ٹی ایم میں نقدی کی ضروریات کو پورا کرنے ناکام ثابت ہوئی ہے۔ گذشتہ ایک ہفتے سے شہروں میں لوگ پیسوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور اب دیہی علاقوں میں بھی صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار سنجوائے مجمدار نے دیہی علاقوں کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے راجستھان کے ایک گاؤں کا دورہ کیا۔

دارالحکومت دہلی سے 250 میل کے فاصلے پر راجستھان کے كرڈولا گاؤں میں صبح کے پانچ بجے کا وقت ہے۔ فضا میں سردی کی آہٹ محسوس کی جا سکتی ہے اور ہوا کی تاثیر بھی ٹھنڈی ہے۔

لیکن گاؤں کے چوک یا مقامی چائے کی دکان پر بہت کم لوگ دکھائی دے رہے ہیں۔ کاشت کاری کے اس موسم میں اکثر کسان اور محنت کش اس وقت کھیتوں میں ہوتے ہیں لیکن وہاں کوئی بھی نظر نہیں آرہا ہے۔

اس گاؤں کے زیادہ تر لوگ بینک آف بڑودہ کی مقامی شاخ کی طرف جا چکے ہیں۔ وہاں تقریباً 50 لوگ پہلے سے ہی قطار میں کھڑے ہیں۔ خواتین اور مردوں کی الگ الگ قطاریں لگی ہیں۔

یہاں کچھ لوگ سردی سے بچنے کے لیے آگ جلا کر تاپ رہے ہیں انھی میں سے ایک نظام خان ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘گذشتہ چند روز سے اسی طرح سے چل رہا ہے۔ بینک کھلتا ہے اور پیسہ جلد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ یہاں گذشتہ تین چار روز سے مسلسل آ رہے ہیں۔’

ایک کسان مزدور جوارا رام کی بے چینی تو صاف طور پر نظر آ رہی ہے۔

ہاتھ میں اپنی بیٹی کی شادی کا کارڈ لے کر قطار میں کھڑے ہونے والے جوارا رام نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ‘کل میری بیٹی کی شادی ہے اور میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ہے۔ بینک والوں نے میرے پرانے تمام نوٹ لے لیے ہیں اور میرے پورے خاندان کے پاس مجموعی طور پر ایک لاکھ روپے بچے ہیں۔’

گذشتہ کئی دنوں سے جوارا رام مسلسل بینک آتے رہے ہیں لیکن قطار اتنی لمبی ہوتی ہے کہ نمبر آتے آتے بینک میں نقد رقم ختم ہو جاتی ہے۔

صبح پانچ بجے سے لائن میں لگنے والے جوارا رام بتاتے ہیں:’آج میں اپنی بہن، بیٹی اور بیوی کو بھی ساتھ لے کر آیا ہوں تا کہ کسی ایک کا نمبر تو آ جائے اور ہمیں کچھ پیسہ مل سکے۔’

تقریبا 10 بجے سکوٹر پر سوار بینک کے مینیجر وہاں آتے ہیں اور بینک کا تالا کھولنے کے بعد اعلان کرتے ہیں: ‘آج صرف پیسہ جمع کیا جائے گا۔ کھلے پیسے دینے کے لیے بینک کے پاس آج کیش نہیں ہے۔’

وہ جلد بازی میں بینک میں داخل ہوتے ہیں۔ میں ان کے پیچھے جاتا ہوں۔ بینک کے مینیجر جے پی شرما کہتے ہیں: ‘میں کیا کر سکتا ہوں۔ ہمیں پیسہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن نہیں ملا۔ میرا بینک قریبی پانچ دیہات کو سروس فراہم کرتا ہے۔ ان سب کو پیسے کی ضرورت ہے لیکن میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔’

جوارا رام کی پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ انھوں نے جو بھی کچھ سنا اس پر وہ یقین نہیں کر پا رہے ہیں۔ وہ سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں: ‘میں اب کیا کروں گا۔ شادی میں آنے والے مہمانوں کے لیے مجھے کھانے کی اشیا خریدنی ہیں اور تقریب کے انتظام کے لیے بھی پیسہ دینا ہے۔ وہ ادھار یا قرض پر دیں گے بھی نہیں۔’

نقدی کا بحران

ہر شخص پریشان ہے۔ ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے کچن میں اب کچھ نہیں ہے: ‘ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔ میں چائے، چینی اور آٹا خریدنے کی امید سے آئی تھی لیکن اب کیا کروں گی؟’

حکومت کے اس فیصلے سے لوگوں میں بہت غصہ ہے۔ ایک کاشت کار گجیندر سنگھ پوچھتے ہیں: ‘کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے پاس بھی کالا دھن ہے۔ کسان کسی بھی صورت میں انکم ٹیکس نہیں دیتا ہے۔ ہماری نقدی رقم تو قانون کے مطابق ہے۔ ہم اپنا پیسہ گھر میں ہی رکھتے ہیں۔’

یہاں دوسرے لوگ بھی ہیں جن کے بہت سے مسائل ہیں۔ مہیش کمار 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے چار لاکھ روپے جمع کروانے آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘میرے خاندان میں 32 لوگ ہیں۔ یہ ہم سب کا پیسہ ہے۔’

ایک ایسا شخص بھی ہے جن کا بینک میں اکاؤنٹ ہی نہیں ہے اور فی الوقت بینک کے پاس وقت نہیں ہے کہ ان کی اس معاملے میں مدد کر سکے۔

وہ کہتے ہیں: ‘میں اب کیا کروں؟’ ان کے ہاتھ میں پیسوں کا ایک بیگ ہے۔ وہ پوچھتے ہیں: ‘لوگ کہتے ہیں کہ میرا پیسہ اب کسی کام کا نہیں ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری بچت پر پانی پھر گیا ہے؟’

کرنسی کے اس بحران کا اثر صرف چھوٹے چھوٹے خاندانوں پر ہی نہیں پڑ رہا ہے بلکہ اس کا اثر پوری دیہی معیشت پر بھی نظر آتا ہے۔

اس کی وجہ سے مزدوروں کو کھیتوں میں کام نہیں مل پا رہا ہے، کسی کے پاس مزدوروں کو دینے کے لیے پیسہ ہی نہیں ہے۔

ایک شخص نے کہا ‘یہ سب کچھ جلد ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ ورنہ مخالفت کی یہ آہٹ تشدد کا رخ اختیار کر سکتی ہے۔’

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website