چکری کے دبنگ راجپوت چودھری نثار علی خان جب بھی بولتے ہیں پنجابی محاورے والا ’’کنڈا‘‘کھول دیتے ہیں۔گزشتہ ہفتے کی سہ پہر بھی انہوں نے ایک پریس کانفرنس کی۔ اس دوران غم وغصے سے کپکپاتے ہوئے انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک بہت دیانتدار اور قابل جج کی جانب سے سانحہ کوئٹہ کے بارے میں لکھی ہوئی رپورٹ میں اپنی وزارت پر ہوئی تنقید کو رد کیا۔
اس کالم کو باقاعدگی کے ساتھ پڑھنے والے قاری یہ طے کر بیٹھے کہ میں پیر کے روز چھپے اپنے کالم میں اس پریس کانفرنس کا ذکر کروں گا۔ میں غچہ دے گیا۔
چودھری صاحب کے بارے میں 1985ء سے لکھتا رہا ہوں اکثر ان کی تعریف ہی لکھی۔ نواز شریف کی تمام حکومتوں میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود کرپشن کی کوئی کہانی ان سے منسوب نہیں ہو پائی ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف بھی اکثر کرتا رہتا ہوں اگرچہ سیاست محض دیانت کا تقاضہ نہیں کرتی۔ حکمت بھی اس کا ایک اہم ترین وصف ہے نواز شریف حکومت کا طاقت ور ترین وزیر ہوتے ہوئے چودھری صاحب سے صبر اور حکمت کی توقع اس لئے بھی زیادہ کی جاتی ہے کہ موصوف اقتدار کے کھیل سے جڑی باریکیوں کو اپنے طویل تجربے کی بدولت خوب سمجھتے ہیں۔
میں انتہائی خلوص اور دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ چودھری صاحب کو کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار ایک پریس کانفرنس کے ذریعے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بہتر ہوتا کہ وہ اپنی معاونت کے لئے مامور وکلاء کے ذریعے سپریم کورٹ کو ایک چٹھی لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیتے۔ اس چھٹی میں یہ استدعا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں تھا کہ چونکہ میڈیا میں ان کی ذات اور وزارت کے بارے میں لکھی باتوں کو بہت اُچھالا جارہا ہے، اس لئے انہیں اس چٹھی کے مندرجات عوام کے روبرو لانے کی اجازت دی جائے۔
چودھری صاحب اپنے غصے پر لیکن قابو نہ پاسکے دل میں جمع ہوئے طیش کو سخت ترین الفاظ میں بیان کردیا۔ اب وہ جانیں اور ان کے سیاسی مخالف، اگرچہ چودھری صاحب کی ہفتے کے روز ہوئی پریس کانفرنس کا اصل نقصان نواز حکومت کو ہوگا۔اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ ’’تھینک یو‘‘کے عادی بنائے جنرل راحیل شریف صاحب کو عزت واحترام کے ساتھ اپنی معینہ مدت کے اختتام کے بعد رخصت کرکے نواز حکومت اب عدلیہ کے ساتھ خواہ مخواہ اُلجھنے میں مشغول ہوگئی ہے۔
اپنی پریس کانفرنس میں چودھری صاحب نے کئی بار اعتراف کیا کہ انہوں نے جسٹس فائز عیسیٰ کی بڑی محنت وخلوص کے ساتھ لکھی سوسے زیادہ صفحات پر مشتمل رپورٹ کو تفصیل سے نہیں پڑھا وہ تو صرف ان حصوں کے بارے میں اپنے ردعمل کا اظہارکر رہے ہیں جو میڈیا میں ان کی ذات اور وزارت کے بارے میں اچھالے گئے ہیں۔ انگریزی والانقصان مگر ہو چکا ہے میں اس کالم کے ذریعے اس کی تلافی کرنے کا نہ حق رکھتا ہوں نہ ہی ذمہ دار۔ چودھری صاحب کے ساتھ ذاتی تعلق کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے بارے میں لکھنے سے گھبراتا ہوں اگرچہ میرے پاس اتنا وافر سرمایہ ہرگز موجود نہیں جسے بیرون ملک بھجوانے کے لئے مجھے کسی ایان علی کی ضرورت ہو۔ کسی بھی نوعیت کا اسلحہ رکھنے سے بھی میں گھبراتا ہوں۔ اس کا لائسنس حاصل کرنے کے لئے بھی مجھے چودھری صاحب کی ضرورت نہیں۔ رپورٹنگ عرصہ ہوا چھوڑ رکھی ہے۔ لہذا خوف یہ بھی نہیں کہ کوئی خبر لکھنے کی وجہ سے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائوں۔ ایسا ہوگیا تو وزیر داخلہ میری ’’سورس‘‘ کا پتہ چلانے کے لئے کسی کمیشن کے قیام میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے۔
وزیر اعظم بھی اس ضمن میں ان کی سرپرستی میں تامل سے کام نہیں لیں گے نام نہاد ’’ڈان لیک‘‘ کی وجہ سے پرویز رشید جیسے وفادار کو قربان کرنے میں نواز شریف نے ذرا دیر بھی نہیں لگائی تھی میں کس کھیت کی مولی ہوں۔ اجتماعی طورپر نواز شریف اور ان کے نورتن آزاد صحافت سے جبلی طور پر خارکھاتے ہیں۔ انگریزی محاورے کا (خرید و یا دبائو) ہی واحد حربہ ہے جو صحافی کا مکو ٹھپنے کے لئے وہ استعمال کرنا جانتے ہیں۔ اپنی رپورٹنگ کے دنوں میں ان کا یہ حربہ میں خوب بھگت چکا ہوں۔ عمر گزرنے کے ساتھ مگر اب کونے میں بیٹھ کر دہی کھانے کی عادت ہوگئی ہے۔ ’’گوشے میں قفس کے‘‘والا آرام جس کی ضرورت ہیٹر کے عادی ہوئے جسم کو سردیوں میں مزید شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے۔
یہ سب بیان کرنے کے بعد صرف چودھری نثار علی خان ہی سے نہیں پوری حکومت بلکہ اپوزیشن میں موجود بلندآہنگ سیاستدانوں سے استدعا صرف اتنی ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی لکھی رپورٹ کو ایک نہیں سو بار پڑھیں۔ اس رپورٹ کے ذریعے انتہائی منطقی انداز میں سمجھادیا گیا ہے کہ دہشت گردی کا پچھلے کئی برسوں سے مستقل نشانہ رہنے کے باوجود ہماری ریاست یہ طے نہیں کر پائی ہے کہ مذہب کے نام پر دندناتے دہشت گردوں میں ’’اچھے‘‘ اور ’’بُرے‘‘ کی تخصیص نہیں کی جا سکتی۔ اسلام کے نام پر پھیلائی اشتعال انگیزی کا حتمی نشانہ ہمارے اپنے لوگ اور ریاستی ادارے بناکرتے ہیں۔ ہم بحیثیت مجموعی اس انتہاء پسندی اور اشتعال انگیزی کا مناسب توڑ ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں۔ دل دہلادینے والا دُکھ یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کی کوئی ہولناک واردات ہو جانے کے بعد زخمیوں کے مناسب علاج کا بھی کوئی بندوبست نہیں۔ ہلاک شدگان کے لواحقین آفتوں کے بعد خود کو بے بس وتنہاء محسوس کرتے ہیں۔
نام نہاد نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں تمام تر بڑھکوں کے باوجود ہم ابھی تک مؤثر کمانڈ اینڈ کنٹرول سے لیس ایسا کوئی ادارہ بنا نہیں پائے جہاں دہشت گردوں کے بارے میں پیشگی اطلاعات یکجا ہوں۔ ان اطلاعات کی بنیاد پر ریاست پیش قدمی کرتے ہوئے کوئٹہ جیسے سانحات کو روک سکے۔ سانحے کے بعد بھی مجرموں کو سراغ لگانے اور کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے تحقیق، تفتیش اور تعزیر کے جامع انتظامات میسر نہیں ہیں۔
اپنے یار چین کے ساتھ مل کر سی پیک کی تکمیل کرتے ہوئے دہشت گردی کی ہر واردات کو ہم اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوششوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔کلبھوشن کی گرفتاری یاد آجاتی ہے۔ یہ سوال اٹھانابھی ’’غداری‘‘ سمجھاجاتا ہے کہ اپنے ازلی دشمنوں کے دل میں سی پیک کے بارے میں موجود غصے کو پوری طرح جانتے ہوئے بھی ہم اس کی سازشوں کا تدارک کرنے میں اکثر ناکام کیوں رہتے ہیں۔اپنی کوتاہیوں کا تعین ’’غداری‘‘ نہیں ہماری ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو اپنے سرلینے کو لیکن کوئی تیار نظر نہیں آرہا۔ انا اور ٹرف کے جھگڑے ہیں جن کا اختتام ہوتا مجھے تو نظر نہیں آرہا۔