لاہور (ویب ڈیسک) تین چار دن پہلے(ہفتہ،3نومبر 2018ء کی شب) ’’سما‘‘ ٹی وی چینل پر ایک ٹاک شو چل رہا تھا جس کی اینکر، کوئی پارس زیب صاحبہ تھیں اور ان کے سامنے حسبِ معمول پاکستان کی سیاسی مین سٹریم پارٹیوں کے ترجمانوں کے علاوہ ایسے فوجی تجزیہ کار حضرات بھی فروکش تھے
نامور کالم نگار اور پاک فوج کے ریٹائرڈ افسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جن کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں۔ لیکن ان کو اس لئے دعوتِ کلام دی جاتی ہے کہ چونکہ پاکستان آرمی تین عشروں تک پاکستان کی مسندِ اقتدار پر فائز رہی اس لئے یہ تصور کر لیا گیا کہ اس کا بھی کوئی نہ کوئی ترجمان ہونا چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس ’’ابلاغی خلا‘‘ کو پُر کرنے کے لئے خود آرمی یا آئی ایس آئی نے اپنے ترجمانوں کا ایک خصوصی پینل تشکیل دے رکھا ہے جس میں ایک ستارے والے جرنیل (بریگیڈیر) سے لے کر تین ستاروں والے جرنیل (لیفٹیننٹ جرنل) تک کے مبصر اور تجزیہ کار شامل ہیں۔ویسے تو یہ آفیسرز ریٹائرڈ ہوتے ہیں لیکن خیال یہی کیا جاتا ہے کہ کسی ٹی وی ٹاک شو میں اگر سیاستدانوں کو نمائندگی دی جاتی ہے تو افواجِ پاکستان کو بھی دی جانی چاہیے۔ اسی سبب گزشتہ دس پندرہ برسوں سے افواجِ پاکستان کے یہ سابق اور ریٹائرڈ جنرل آفیسرز، الیکٹرانک میڈیا پر آکر مسلح افواج کی ترجمانی کا ’’حق‘‘ ادا کرتے پائے جاتے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ پاک بحریہ کا کوئی ایڈمرل ان ٹاک شوز میں کیوں نہیں آتا جبکہ آرمی اور ائر فورس کے کئی سینئر آفیسرز ہر روز کسی نہ کسی چینل پر رونق افروز ہوتے ہیں۔اور ان موضوعات پر دھڑا دھڑ بول رہے ہوتے ہیں جو ان کی پیشہ ورانہ زندگی سے کوسوں دور رہے۔
( میں یہ رونا پہلے بھی کئی بار رو چکا ہوں)۔ ان جرنیلوں میں جو چند نام اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں وہ جنرل امجد شعیب، جنرل عبدالقیوم، جنرل قادر بلوچ ،جنرل طلعت، جنرل لودھی، جنرل اعوان، ائر مارشل شہزاد چودھری، ائر مارشل شاہد لطیف، بریگیڈیئرفاروق، بریگیڈیئر اسد اور کئی نام ایسے اور بھی ہوں گے جو اس وقت ذہن کی تجوری سے باہر نہیں نکل رہے۔درج بالا سینئر ریٹائرڈ فوجی افسروں میں جنرل عبدالقیوم اور جنرل قادر بلوچ چونکہ باقاعدہ مسلم لیگ(ن) کی کابینہ کے ممبر رہے اس لئے وہ اپنی ’’سروس پارٹی‘‘ کی بجائے اپنی ’’سیاسی پارٹی‘‘ کے نقطہ ء نظر کو سپورٹ کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے۔ یہ آفیسرز (ازراہِ مجبوری ہی سہی) آج بھی اپنی سیاسی پارٹی کی کاز کی سرگرم وکالت کرتے پائے جاتے ہیں جبکہ ان کے علاوہ باقی درجن بھر جنرل صاحبان ہمیشہ اپنی ’’سروس پارٹی‘‘ کا ویو پوائنٹ پیش کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔۔۔ اب اگرچہ نیا پاکستان معرضِ وجود میں آ چکا ہے لیکن یہ فوجی تجزیہ نگار اور مبصر ، پرانے پاکستان کی باقیات ہیں اور آج بھی مختلف چینلوں پر مدعو کئے جاتے ہیں اور سامعین و ناظرین کو ،بقول کسے، ان کی بدولت ایک متوازن اور ہمہ جانبی تجزیہ سننے کو مل جاتا ہے!
میں سما ٹی وی کے ٹاک شو کی بات کر رہا تھا۔۔۔ اس کی اینکر پرسن نے باتوں باتوں میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ موجودہ عمران خانی حکومت میں میڈیا کا بُرا حال ہو رہا ہے۔ کئی چینل بند ہو چکے ہیں اور کئی دوسروں پر بندش کی تلوار لٹک رہی ہے۔ تاہم اینکر نے یہ نہ بتایا کہ کون سا چینل بند ہوا ہے۔یعنی یہاں بھی ’’حساس اداروں‘‘ والے کلچر کی پیروی کی گئی۔۔۔بندہ پوچھے ’’وقت‘‘ چینل کا نام لینے میں کیا ہرج تھا؟ ۔۔۔کس کو معلوم نہیں کہ وہ چینل کیوں بند ہوا؟ پارس بی بی کی بات سنتے ہی جنرل اکرم اعوان نے برجستہ کہا: ’’ابھی تو کئی چینل بند ہوں گے۔آپ ایک کو رو رہی ہیں‘‘۔۔۔۔قارئین کو یہ تو معلوم ہے کہ ’’وقت‘‘ چینل کی بندش وزارتِ اطلاعات کی طرف سے نہیں کی گئی بلکہ یہ اس لئے بند ہوا کہ اس کو حکومت کی طرف سے وہ اشتہارات نہیں ملے جو گزشتہ دس پندرہ برسوں سے مل رہے تھے۔ اور چونکہ یہ چینل خسارے میں جا رہا تھا اس لئے بند کرنا پڑا۔ دوسرے لفظوں میں کیا یہ سمجھا جائے کہ جس چینل کو حکومت کی طرف سے مالی سپورٹ نہیں ملتی، وہ سروائیو نہیں کر سکتا؟۔۔۔ اس موضوع پر ایک سیر حاصل بحث ہونی چاہیے اور عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ گزشتہ حکومتیں ان چینلوں کو اکنامک آکسیجن کیوں فراہم کرتی رہیں، اس آکسیجن کا حجم اور اس کی مقدار کیا تھی اور حکومتی آکسیجن کا وہ سائز کتنا بڑا تھا جو پاکستانی عوام کی جیبوں سے خریدی جا رہی تھی۔
جب 2001ء میں یہ نجی چینل شروع ہوئے تھے تو اول اول ان کے مالکان وہی لوگ تھے جن کا پرنٹ میڈیا کروڑوں میں کھیل رہا تھا۔ چنانچہ جیو، وقت اور ڈان وغیرہ نے ابلاغ عامہ کے اس نئے ذریعے کا بڑے طمطراق سے خیر مقدم کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اربوں کی کمائی ہونے لگی۔ ان کی دیکھا دیکھی کئی دوسرے چینل بھی میدان میں آ کودے جن میں ARY، آج، سما، ایکسپریس، دنیا، بول، 92 اور درجنوں دوسرے چینل شامل تھے۔۔۔ اس طرح چینلوں کا اتوار بازار لگ گیا۔قارئین جانتے ہیں کہ یہ کروڑوں کا نہیں اربوں کا بزنس ہے۔ البتہ قومی سطح کے وہ اخبارات جن کے پاس اتنا کثیر سرمایہ نہیں تھا اور نہ کوئی سرمایہ کار ان کا شریک کار بننے پر راضی تھا اس لئے وہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھو سکے۔۔۔ ہمارا اخبار ’’پاکستان‘‘ بھی ان میں شامل ہے۔ جہاں تک میں نے سمجھا ہے ’’پاکستان‘‘ نے اچھا ہی کیا کہ ابلاغی اخلاقیات پر آنچ نہیں آنے دی۔۔۔ ایکسپریس، ٹریبون، دنیا اور ARY وغیرہ جیسے میڈیائی اداروں نے اس لئے زیادہ شہرت پائی کہ ان کے مالکان کا کاروباری تعلق صرف میڈیا سے نہیں تھا۔ ان کے ذرائع آمدن اور بھی تھے۔ اور میں تو ایک عرصے سے لکھ رہا ہوں کہ جس عجلت اور کثرت سے پاکستان میں CNG اسٹیشن کھل گئے تھے اور پھر اسی عجلت سے بند بھی ہو گئے اسی طرح یہ ابلاغی الیکٹرانک ادارے بھی برساتی مینڈکوں کی طرح جس تیزی سے کھلے تھے اسی تیزی سے بند ہو جائیں گے۔۔۔ان کا جانا ٹھہر چکا ہے۔ آج نہیں تو کل ۔۔۔ یہ غریب قوم آخر کب تک ان کا بوجھ اٹھائے گی؟
اگر کوئی چینل معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا تو برلبِ دیوالیہ پی ٹی آئی حکومت جو مختلف ملکوں سے بیل آؤٹ پیکج مانگ رہی ہے وہ ان چینلوں کو بیل آؤٹ کرنے میں کیا دلچسپی رکھے گی؟ کیا ملک میں دو چار چینل کافی نہیں ہوں گے جو بالغ نظری اور پختہ کاری کا ثبوت دیتے ہوئے، زرد سیاست کو قبلہ نہ بنائیں اور قومی وقار اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کریں ؟ انڈیا کو تو چھوڑیں ہمارے دوسرے ہمسائے بھی انگریزی زبان کے چینلوں کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں صرف پی ٹی وی ورلڈ ہی ایک ایسا چینل ہے جس نے بیرون ملک پاکستان کا کچھ نہ کچھ بھرم رکھا ہوا ہے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی خبریں اردو نہ جاننے والوں تک پہنچتی ہیں۔یادش بخیر ڈان نے شروع شروع میں ایک انگریزی ورشن آن ایئر کیا تھا لیکن اسے جلد بند کرنا پڑا۔ اس کی بڑی وجہ مالیاتی خسارہ بتائی گئی۔لیکن کوئی بھی ابلاغی ادارہ راتوں رات تو منافع بانٹنے کے قابل نہیں بن جاتا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آجکل ’’ٹریبون 24/7‘‘ کے نام سے ایک نئے انگلش چینل کی ٹیسٹ ٹرانسمشنز آن ایئر ہو رہی ہیں۔ تاہم ملک میں کم از کم تین چار چینل ایسے ہونے چاہیں جن کی آواز کی رسائی اور تفہیم گلوبل زبان میں ہو اور گلوبل سطح کی ہو۔ اس لئے حکومت کو انگریزی زبان کے چینلوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
پاکستانی چینلوں میں ریٹنگز کا مسئلہ بھی ارادتاً سامنے لایا گیا۔ اینکرز کی تنخواہیں لاکھوں تک چلی گئیں۔ سوشل میڈیا پر یہ خبریں ایک عرصے سے چل رہی ہیں کہ کس اینکر کا مشاہرہ کتنے لاکھ ہے اور اس کو کس رئیل اسٹیٹ ٹائی کون سے کتنی امداد مل رہی ہے اور کونسی سیاسی پارٹی اپنی لابنگ میں ان چینلوں پر پانی کی طرح پیسہ بہا رہی ہے۔اب 18 اگست 2018ء سے چونکہ ایک نئی پارٹی برسر اقتدار آئی ہے اس لئے پرانی پارٹیوں کی طرف سے اشتہاراتی بارشیں رک گئی ہیں۔ نئے پاکستان کی نئی سیاسی پارٹی کو بھی شدید خشک سالی کا سامنا ہے۔ حد یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا بھی کہ الیکٹرانک میڈیا کے شاہانہ طرزِ زندگی کے مقابلے میں درویشانہ طرزِ زندگی کا خوگر تھا وہ بھی حکومت کی طرف سے اشتہارات نہ ملنے کے باعث سخت مشکلات کا شکار ہے اور اپنے عملے میں تخفیف کرنے پر مجبور ہے ۔اگر اسے کوئی ’’بیل آؤٹ پیکج‘‘ نہ دیا گیا تو شاید اسے بھی کسی IMF کی طرف جانا پڑے۔ پرنٹ میڈیا کے کرتا دھرتا حضرات اور ماکان کو بھی جلد کوئی متبادل راہ نکالنی ہو گی اور کسی ایسے سرمایہ کار کو اس فیلڈ میں لانا ہوگا جو ان کی کشتی کو بھنور سے نکال سکے اور صبر کرے۔۔۔ اگر پاکستان کو سعودی عرب، امارات اور چین سے کوئی بڑا اقتصادی پیکیج مل جاتا ہے تو حکومت کو اشتہارات کی مد میں اپنے طریقِ کار پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔۔۔ بے جا فیاضی سے بے شک کام نہ لیں لیکن کفایت شعاری کو تو شعار بنایا جا سکتا ہے۔۔۔ میرے خیال میں پرنٹ میڈیا کوئی ایسا ’’لکھ لٹ‘‘ابلاغی پراجیکٹ نہیں جس میں حکومت کی طرف سے بے دریغ سرمائے کی ضرورت ہو۔