’’روش‘‘ اور ’’انٹرنیشنل رائٹرز کونسل‘‘ کے زیر اہتمام الماس شبی کی کتاب کی تقریب رونمائی
الماس کے قلم کا سحر ہو یا آواز کا جادو دونوں ہی سر چڑھ کر بول رہا ہے اُنکی فکر و عمل کی بدولت پنج ریڈیو یو ایس اے تشنگان شعروادب کو سیراب کرنے کے لئے ایک مثبت و فعال کردار ادا کر رہا ہے جسے ہر سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ پاکستان بھرمیں اُن کے اعزاز میں شاندار و پُروقار تقاریب کا سلسلہ بڑے جوش و خروش سے جاری ہے ۔نہ لٹریری فیسٹول،نہ انٹرنیشنل اردو کانفرنس،نہ ادبی جشن، نہ سمینار،نہ ہی کوئی نیشنل ایوارڈز تقریب، اسکے باوجود کثیر تعداد میں ادبی فلک کے آفتاب و مہتاب سے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج ،آرٹ اینڈ کلچر قذافی سٹیڈیم کا روشن ہال قابل دید تھا ۔دنیائے علم و ادب کی ممتاز ہستیوں،علم فہم اور ادب شناس حضرات ہر دلعزیز الماس شبی کی پہلی نثری کتاب ’’ابھی ہم تمہارے ہیں‘‘ میں شریک ہو کردل کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنی اس محبت کا خوب اظہار کر رہے تھے کہ ہم سب تمہارے ہیں۔’’روش‘‘ اور ’’انٹرنیشنل رائٹرز کونسل‘‘ کے زیر اہتمام منوبھائی زیرِصدارت اس باوقار منعقدہ محفل میں بشری رحمن، اجمل نیازی،رخسانہ نور، عمرانہ مشتاق، صغری صدف، سعد اللہ شاہ، صوفیہ بیدار،خالد شریف نے بحثیت مہمانان اعزازی شرکت کی۔ محمد نواز کھرل کی نظامت کے تو کیا ہی کہنے ،دلفریب الفاظ کی مالا پروتے رہے ،دل سے دل جوڑتے رہے اور محفل کی ادبی شان لمحہ بہ لمحہ بڑھاتے چلے گئے اپنے انداز و بیان میں کسی کو اثرانداز نہ ہونے دیا اورباحسن خوبی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔تقریب کا باقاعدہ آغٖاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت عاطف نواز نے حاصل کی۔محترم گوندل نے سعداللہ شاہ کا نعتیہ کلام ’’رہے پیش راہ تیرا نقشِ پا۔۔میرے مصطفی میرے مجتبی‘‘پیش کیا
اظہار خیال کا سلسلہ آغاز ہوا تواحتشام جمیل شامی نے الماس شبی کو’’ابھی ہم تمہارے ہیں‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہاکہ انکا شمار چند ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں لکھنے کے ساتھ ساتھ بولنے کا فن بھی خوب آتا ہے ۔روش کے بانی ثناء اللہ شاہ نے اپنی گفتگو کا آغاز منو بھائی سے اپنے دیرنیہ ادبی تعلقات سے کیا اور انکی خدمات کو سراہا،محترمہ عمرانہ مشتاق، محترمہ رخسانہ نور اور نواز کھرل کی فروغ ادب کے حوالے سے کاوشوں کو قابل تحسین قرار دیا انہوں نے اپنی ادبی تنظیم کی آئندہ کی حکمت علمی بارے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ادبی شخصیات کے لئے میڈیکل ، شادی کے اخراجات اور کتابوں کی پبلی کیشن کے اخراجات میں مکمل تعاون کے علاوہ بھی کئی اہم معاملات پر سہولیات فراہم کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جا رہا ہے۔الماس شبی کے حوالے سے اپنے اظہار میں کہا کہ انہوں نے پنج ریڈیو پر تمام ادیبوں، شعراء، دانشوروں کا ایک پلیٹ فورم پر اکٹھا کیا ہے،اپنی نوعیت کی منفرد اور واحد کتاب کی اشاعت پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔اِس موقع پر اسلام آباد سے تشریف لائیں شاعرہ رخسانہ سحر نے الماس شبی کو پھولوں کا مہکتا گلدستہ بھی پیش کیا اور اپنے اشعار بھی نذر کئے جسے بے حد پسند کیا گیا
تری جانب سے ملاقات کا وعدہ ہو گا
کب دعاؤں میں اثر زیادہ ہو گا
اے سحرؔ رات گئے اُن سے چلی ہو ملنے
کیسے دروازہ شب تم پے کشادہ ہو گا
صدر انٹرنیشنل رائٹرز کونسل ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلسل رابطے میں رہنے والی محبتیں لٹانے والی الماس ہمارے دلوں میں بسی ہے،انکے لئے نیک تمنائیں اور بہت دعائیں۔عمران شوکت نے منوبھائی کا عارفانہ کلام پُرترنم پیش کر کے دلوں میں سوز و گداز پیدا کر دیا۔الما س شبی کی شخصیت و فن کے حوالے سے اپنے اظہار میں ادبی تنظیم ’’روش‘‘ کی روح رواں رخسانہ نور جو اپنی شیریں کلامی، جداگانہ انداز شاعری، ادب و ثقافت کیلئے گراں قدر خدمات کی بدولت اپنا خاص مقام رکھتیں ہیں ،نے کہا کہ انکی ’’ابھی ہم تمہارے ہیں ‘‘ کاوش ادب میں ایک حسین نئا تجربہ ہے،جس میں ہمیں محبت میں دکھ اور دکھ میں محبت ملتی ہے،دو افراد کی میٹھی دھیمی سریلی گفتگو سے منظر بنا کر چلتی ہے۔الماس شبی بحثیت دوست ایک مثال ہے ،کسی کے لئے بھی کچھ بھی کر جانے کا جذبہ رکھتی ہے۔پنج ریڈیو نے دکھ سکھ شیئر کرنے کا ایک خوبصورت پلیٹ فورم مہیا کیا ہے۔مہمان اعزازی سید نور قدرے تاخیر سے پہنچے اور سٹیج پر جلوہ افروز ہوئے تو انکا شرکاء نے تالیوں سے پرتپاک استقبال کیا۔خالدہ انور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ابھی ہم تمہارے ہیں ‘‘ الماس شبی کی اچھی کاوش ہے،دو کردار کے مابین مکالمہ ہے مگر بوریت کا وجہ نہیں بنتا، الماس دوستوں کی دوست ہے اور دشمنوں کی بھی دوست ہے۔محبت بانٹتی بھی ہے اور سمیٹتی بھی،اِس کے لئے اتنا ہی کہوں گی
شبی ہم تمھارے ہیں ۔۔۔سبھی ہم تمھارے ہیںخیال افروز صوفیہ بیدار کا کہناتھا کہ میں الماس شبی کی محبتوں کی اسیر ہوں ،انکی کتاب ’’ابھی ہم تمہارے ہیں ‘‘ میں نثر اور نظم ایک پکڈنڈی کی طرح چل رہے ہیں،جس میں ان کہی محبت،رات کے لبادے میں دن، محبت کے دل میں خدشہ دکھائی دیا ہے۔انہیں اس کامیاب کاوش پر دلی مبارکباد اور بہت سی دعائیں ۔سعد اللہ شاہ نے کہا کہ شاعری ہی شبی کا حوالہ ہے،اسلوب عمدہ ہے،بہترین تخلیقی جملے ہیں،بنیادی طور میں دو افراد کے مابین گفتگو آدم اور حوا کی گفتگو ہے ۔مجھے دو کرداروں کے درمیاں تیسرا شیطان بھی نظر آیا ہے۔سعد اللہ شاہ کے پیش کئے گئے اشعار پر شرکاء نے دل کھول کر داد لٹائی
موسم تیرے آون نال
موسم تیرے جاون نال
بندہ کلا رہ جاندا
بہتے یار بناون نال
صغری صدف نے پنجابی زبان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ الماس شبی کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی ہی ہے کہ آج محفل میں شخصیات نہیں بلکہ مثبت شخصیات کی کثیر تعداد نے شرکت کی ہے۔ ’’ابھی ہم تمہارے ہیں ‘‘ کے حوالے سے انہوں کا کہنا تھا کہ ایسا مکالمہ کم کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے جس میں بہت سادگی اور روانی نے بہت متاثر کیا ہے۔فروغ ادب کے لئے روش اور انٹرنیشنل رائٹرز کونسل بہت مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔سید نور نے کہا ’’ابھی ہم تمہارے ہیں ‘‘ اتنا خوبصورت اور متوازن مکالمہ ہے کہ میرا ذہن ۲۵۰ کہانیاں تخلیق کر چکا ہے۔میری خواہش ہے کہ یہ میرے فلموں کے لئے بھی ڈائیلاگ لکھیں۔خالد شریف اور اجمل نیازی نے بھی الماس شبی کو انکی کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد اور وش اور انٹرنیشنل رائٹرز کونسل کو انکی ادبی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا۔بشری رحمان نے کہا کہ اہل کتاب اپنی کتاب میں خود نظر آتا ہے۔اس خوبصورت مکالمے میں قارئین کو خوشگوار خوشبو،جگ مگ چاندنی اور تازہ ہوا میسر ہوئی ہے۔انہوں نے’’ابھی ہم تمہارے ہیں ‘‘ کی پذیرائی میں اپنا لکھا ہوا سحرانگیز نظمی مکالمہ پیش کر کے تو محفل ہی لوٹ لی ، شرکاء نے خوب پسندیدگی کا اظہار کیا اور بھرپور داد لٹائیالماس شبی نے بامسرت اپنے خیالات کے اظہار میں کہا کہ جن کے بارے میں خواب دیکھا تھا وہ تمام ادبی ستارے یہاں جگ مگ کر رہے ہیں۔میں کسی سے بھی ایک بار تعلق بنا کر اُسے قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کرتی ہوں ۔اس خوبصورت محفل کے انعقاد پر میں رخسانہ نور، عمرانہ مشتاق، ثناء اللہ اور نواز کھرل کی تہہ دل سے مشکور ہوں ۔انہوں نے اپنی پنجابی کے پہلے مجموعہ کلام ’’محبت عذاب‘‘ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر کہا کہ میں اس منفی لفظ کو مثبت معنی دینے کی کاوش کی ہے۔فرمائش پر الماس شبی نے اپنی کتاب ’’ابھی ہم تمہارے ہیں‘‘ سے کچھ منتخب ڈائیلاگ بھی سماعتوں کی نذر کر کے سماں باندھ دیا۔ ’’ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم منو بھائی کے عہد میں زندہ ہیں ‘‘ ناظم محفل کے ان خوشبودار الفاظ نے محفل کے ادبی فضا کو معطر کر دیا انہوں نے مزید کہا کہ منو بھائی قوم کا فخر و ناز ہیں ۔حاضرین نے کھڑے ہو کر تالیوں کی گونج میں صدر محفل کا والہانہ استقبال کیا ۔منو بھائی نے مائیک تھامتے ہی یہ منتخب اشعار پیش کر کے محفل کی رنگینی میں مزید اضافہ کر دیااور بھرپور داد و تحسین کے حقدار بنے
اک خواب ہے سن لو کہ ہے عنوان خوشی کا
یہ قصہ تمھار ہے نہ میرا نہ کسی کا
ان کا کہنا تھا کہ ’’ابھی ہم تمہارے ہیں ‘‘ کی ورق گردانی کی تو خاتون کے کردار سے اماں حوا یاد آ گئیں۔ انہوں نے عورت کے مقام اور تقدس کے حوالے سے بڑی سیرحاصل مدلل گفتگو کی۔اور حاضرین کو ایک سوچ دی۔ انہوں نے کہا مرد نے جو دہشت گرد پھیلانی تھی پھیلا دی اب عورت ہی اپنے مثبت کردار کی بدولت تبدیلی لے کر آئے گی۔معاشرے میں عورت کو وہ عزت و مقام ضرور ملنا چاہیے جس کی وہ حقیقی حقدار ہے ۔انہوں نے الماس شبی انکی ’’ابھی ہم تمہارے ہیں ‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد بھی پیش کی ۔یوں ایک ایسی یادگار تقریب اپنے اختتام کو پہنچی جو پاکستان کی ادبی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھی جائے گی جسکا سہرا بلاشبہ ’’روش‘‘ اور ’’انٹرنیشنل رائٹرز کونسل‘‘ کے منتظمین کے سر ہے۔