تحریر: ایم پی خان
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے آج سے تقریباً ایک صدی قبل ہماری تہذیب کے بارے میں جوپیش گوئی کی تھی ، وہ آج کراچی کے ایک نجی سکول میں نوروز اور فاطمہ کی داستان محبت نے سچ ثابت کردی۔ دسویں جماعت میں ، جہاں بچوں کے ذہن میں یہی ایک بات ہوتی ہے کہ وہ کس طرح تعلیمی میدان میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کریں۔وہ دن رات علم طبیعات اورریاضی کے مشکل ترین مسائل کے حل ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں۔حیاتیات میں نباتات اورحیوانات کے اندرونی اوربیرونی ساخت پر تحقیق کرتے ہیں۔اسلامی علوم اورادب سیکھتے ہیں۔انکے سامنے ایک مقصدحیات ہوتاہے ، کیونکہ اسی درجے سے وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں۔
میٹرک میں نمایاں کامیابی میں ہی مستقبل کی کامیابی مضمرہے۔وہ والدین کی امیدوں کے سہارے جیتے ہیں اوران کی شبانہ روز محنتوں کامحورایک کامیاب انسان بننااورملک وقوم کی ترقی کے لئے نئی راہیں کھولناہوتاہے۔یہی بچے شاہین ہوتے ہیں اور انکی نظریں آسماں پرہوتی ہیں ۔لیکن افسوس کہ علامہ اقبال کے شاہین بچے تربیت سے محروم ہیں بلکہ اس دورکے مکتب میں شاہین بچوں کوخاکبازی کاسبق دیاجاتاہے۔نوروز اورفاطمہ کی داستان محبت اورپھردونوں کی خودکشی جیسے واقعات ان تعلیمی اداروں کی ناکامی اورانکی غلط تربیت کامنہ بولتاثبوت ہے جہاں نہ لڑکے لڑکیوں کے میل میلاپ پرپابندی ہوتی ہے ، نہ انہیں تہذیب سکھائی جاتی ہے اور نہ غیرشرعی اور غیراخلاقی سرگرمیوں پرتنبیہہ دی جاتی ہے۔اس سلسلے میں ایک بات بہت افسوس کے ساتھ کہناچاہتاہوں کہ اکثرتعلیمی اداروں کے مدرسین بھی اس قسم کے غیراخلاقی سرگرمیوں کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔
لہذا ایسے اساتذہ کرام کے سرپرستی میں پروان چڑھنے والے بچوں کے اخلاق کاکیاحال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری تہذیب نے خودکشی کرلی اوروہ بھی ایک مدرسے میں ، جہاں والدین اپنے بچوںکواس امیدکیساتھ بھیجتے ہیں کہ وہ وہاں عظیم انسان بنتے ہیں۔خداوندان مکتب کو توچھوڑئے، والدین کے رویئے بگاڑدیتے ہیں بچوں کو۔بہت سے ایسے باپ میں نے دیکھے ہیں ، جوبچوں کے سامنے سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔کچھ والدین بچوں کے سامنے خوب رومانوی فلمیں دیکھتے ہیں اوربچوں کے سامنے آپس میں بھی خوب رومانوی نازواداکیساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، جہاں سے انکے مزاج، ذوق وشوق اورانکی عادتیں کسی اورطرف سمت میں ترقی کرتی چلی جاتی ہیںاوریہی سے انکے کرداراور روئے بگڑجاتے ہیں۔ سارادن ٹیلی وژن اورانٹرنیٹ پر غیراخلاقی اورقابل اعتراض سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں۔
انکے ذہنوں میں بچپن سے پیاراورمحبت کی باتیں بیٹھ جاتی ہیں۔ اکثروالدین اپنے جوان بچیوں کو بھی جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرنے کے لئے انہیں موبائل فون دیتے ہیں اورانہیں مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ چاہے توفل ٹائم انٹرنٹ استعمال کرے یاکسی سے بھی چاہے توفون پر لمبی لمبی باتیں کرے۔یہی وجہ ہے کہ نوروز اورفاطمہ جیسے معصوم ذہن بھی اتنی کم عمرمیں ایکدوسرے کی محبت میں اس حد تک جاسکتے ہیں کہ نہ اپنے مستقل کی فکررہی ، نہ والدین کے توقعات کی پروا اورنہ اللہ کے عذاب کاخوف رہااورعشق تو اندھا ہوتا ہے لیکن یہ شاہین بچے کیوں اندھے بن گئے۔یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں بلکہ سامان عبرت ہے ، ہم سب کے لئے۔ بحیثیت والدین، اساتذہ اور اداروں کے سربراہان ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مخلوظ طرزتعلیم پر مکمل پابندی لگادی جائے اورتمام سرکاری اورغیرسرکاری تعلیمی اداروں میں لڑکوں اورلڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ کیمپس رکھے جائے۔سکولوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کاایسانظام ہو، جوبچوں کو اسلامی اقدارکااحترام سکھائے۔ انہیںسادگی، حیااورپاکدامنی کادرس دے ۔والدین اپنے بچوں کی ہرحرکت پرنظررکھے، اپنے بچیوں کو پردہ کرناسکھائے۔انہیں نامحرم کے ساتھ آزادانہ میل جول اورباتیں کرنے روکے۔ اس سلسلے میں حکومت وقت کی بھی داریاں ہیں کہ وہ ایسے قوانین کی منظوری دے کہ پورے ملک میںخواتین کیلئے شرعی پردہ لازمی قراردے، مخلوط طرز تعلیم پر پابند عائد کرے،سکول کے بچوں کے لئے موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگائے اوراداروں میں ایسے مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دے۔
جو بچوں کی غیراخلاقی روابط کی کڑی نگرانی کرے اوراس سلسلے میںام کے والدین سے مسلسل رابطے میں رہے۔پاکستان میں ٹیلی وژن اورتھیٹرمیں جوفحش ڈرامے اورپروگرام بنتے ہیں ، ان پرمکمل پابندی لگانابہت ضروری ہے، تاکہ ہماری نئی نسل بے حیائی اورفحاشی سے بچ سکے۔آج پوری دنیامیں خواتین کے پردے کی اہمیت اجاگرہورہی ہے ۔ یورپ اورامریکہ میں خواتین شرعی پردے کے لئے قانونی چارہ جوئی کررہے ہیںاورہم پاکستان میں روزاپنے ہاتھوں سے اپنی تہذیب کاجنازہ نکال لیتے ہیں۔
تحریر:ایم پی خان