تحریر: کے ایم خالد
بوڑھے باپ کی آنکھوں میں آنسوؤں کی وہ نمی تھی جو شائد زندگی میں خشک ہی نہیں ہو سکی تھی اس کے ساتھ ایک دھان پان سا لڑکا تھا جس کے چہرے اور ہاتھوں کی سختی اس بات کا مظہر تھی کہ وہ کم عمری میں ہی زندگی کی کشتی کو باپ کے ساتھ کھے رہا ہے ،بیٹے کے ہاتھوں میں کاغذوں کا ایک پلندہ تھا جسے وہ ہاتھوں میں یوں بھینچے ہوئے تھا جیسے کوئی اس سے چھیننے والا ہو،وہ مجھے ڈی چوک میں ملے تھے انہوں نے مجھ سے وزیر اعظم پاکستان کے دفتر کے بارے میں پوچھا تھا ۔میرے استفسار پر بوڑھے باپ نے صرف اتنا کہا ’’جتنا میرا فرض تھا میں نے پورا کر دیا اب حکومت اپنا کام پورا کرئے ‘میں وزیر اعظم سے مل کر انہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ میرے بیٹے نے چودہ جماعتیں پاس کر لی ہیں اب حکومت اسے ملازمت دے ،یہ دیکھیں میں سفارش بھی لایا ہوں‘‘۔اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جو اس نے میرے ہاتھ میں تھما دیا یہ ان کے آبائی علاقے کے ایم این اے کا چھپا ہوا کاغذ تھا جس پر ایم این اے نے اپنے منشی سے یہ لکھواتے ہوئے دستخط کئے تھے ’’حامل ہذارقعہ ہمارا جدی پشتی ووٹر ہے اس کاکام کر دیں ‘‘ایسے رقعے سینکڑوں کی تعداد میں آنکھوں میں امید کے چراغ لئے لوگ سیکریٹریٹ کی غلام گردشوں میں گھومتے رہتے ہیں اور چند ہی دنوں میں مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں، یہ بوڑھا بھی ایسی ہی امید کے سہارے اسلام آباد پہنچا تھا۔
میں انہیں لے کر اپنے دفتر پہنچا وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے پتہ چلا کہ وزیر اعظم تو غیر ملکی دورے پر ہیں میں نے انہیں بتایا تو دونوں کا اصرار تھا کہ انہیں وہ وزیر اعظم کے دفتر پہنچا دیں شائد وہ ان کا کام کرکے ہی گئے ہوں کیونکہ ان کے ایم این کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم صاحب کو فون بھی کریں گے ۔میں نے لڑکے کی تعلیمی دستاویز دیکھیں اس کے ساتھ مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے کوئی بیس کے قریب این ٹی ایس ٹسٹ بھی پاس کر رکھے تھے ۔’’تمہارے این ٹی ایس کے علاوہ بھی کوئی محکمانہ ٹسٹ بھی ہو ئے ہیں ‘‘ ۔’’نہیں جی،ابھی تک کسی محکمے نے نہیں بلایا ‘‘۔بوڑھے نے بتایا کہ وہ ایک گاؤں کے بھٹے پر کچی اور پکی اینٹیں ڈھونے کا کام کرتا ہے اسے بہت شوق تھا کہ اس کا بیٹا وہ کام نہ کرئے جو اس کے آباؤ اجداد صدیوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں اس کی تعلیم کی خاطر اس نے اپنے بھٹے کے چوہدری اور اپنے پورے خاندان سے بھی بغاوت کی اس کو میں تعلیم دلوا چکا ہوں یہ جو اس نے ٹسٹ پاس کئے ہیں ان پر بھی اپنے بھٹے کے چوہدری سود پر پیسے لے کر قرض کی دلدل میں پھنس چکا ہوں ۔یہ ٹسٹ جن پر ڈھیروں خرچ آتا ہے ہم جیسے غریب لوگوں کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں اور اب یوں لگتا ہے جیسے مجھے اس قرض کی دلدل سے باہر نکالنے کے لئے میرے بیٹے کو اس دلدل میں اترنا ہو گا۔وہ دونوں وزیر اعظم صاحب کی واپسی تک اسلام آباد ہی رہنا چاہتے تھے لیکن میں نے انہیں سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیا۔
ایک تو قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہماری کوئی تعلیمی پالیسی نہیں بن سکی کبھی ہم اغیار کی زبان بولنے لگتے ہیں تو کبھی تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے ہمیں واپس قومی زبان کی طرف آنا پڑتا ہے آج کل ملک کا تعلیمی نظام ایک مرتبہ پھر امیر اور غریب کا فرق مٹانے کے درپے ہے لیکن ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر بدیسی تعلیمی پالیسی اپنانے والے ماہرین صرف اتنی سی بات سمجھ لیں کہ جب تک بھوک برابر نہیں بانٹی جائے گی تب ایک تعلیمی نظام ایک نہیں ہو سکتا،غریب اور ان پڑھ والدین کے بچے جن کی پہلی بریک میٹرک میں لگتی تھی اب انگلش نظام تعلیم کی وجہ سے پانچویں جماعت سے آگے جانے سے قاصر ہیں۔ ایک دور تھا جب وطن عزیز ان جیسے ٹسٹوں سے بہت دور تھا نہ تو ڈاکٹر ،انجینئر بننے کے لئے انٹری ٹسٹ جیسے مراحل تھے اور نہ ہی نوکری کا حصول این ٹی ایس جیسے ٹسٹ کا مرہون منت تھا محکمے اپنے ملازمین کی بھرتی اور طریقہ کارکے انتخاب میں آزاد تھے ،نوکری کے امیدواروں کے ٹسٹ بھی ہوتے تھے اور انٹرویو بھی لیکن کسی امیدوار کو اپنے پلے سے ایک روپیہ بھی نہیں خرچ کرنا پڑتا تھا ،سبھی اخراجات محکمے خود برداشت کرتے تھے اس بات کا سراغ لگانے کی از حد ضرورت ہے کہ کہ صرف ایک دو اسامیوں کے لئے اگر پچاس ہزار امیدوار ٹسٹ کے مراحل سے گزر رہے ہیں تو کروڑوں روپے کس کھاتے میں جا رہے ہیں محکمے اگر پہلے ٹسٹوں کا سارا بوجھ خود برداشت کرتے تھے تو وہ اب یہ بوجھ کیوں نہیں اٹھا سکتے۔
میری ارباب اختیار سے فقط اتنی سی گزارش ہے کہ پڑھے لکھے غریب کے آس کے جگنوؤں کو ان این ٹی ایس جیسے ٹسٹوں کے خرچوں سے ماند نہ ہونے دیں ٹسٹ ضرور لیں لیکن جہاں حکومت اربوں روپے لیپ ٹاپ ،میٹرو ،موٹر وے،ریلوئے اور اس جیسے دوسرے رقیاتی پراجیکٹ پر خرچ کر رہی ہے وہاں لاکھوں امیدواروں کو این ٹی ایس ٹسٹ کی فیس ختم کرکے صرف این ٹی ایس کا امتحان دینے کی خوشی لوٹائی جا سکتی ہے کیونکہ نوکری ملنی نہ ملنی ایک الگ بات ہے۔این ٹی ایس کے ٹسٹ کی فیس محکمے خود ادا کریں اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر اس ٹسٹ کے اخراجات کوموبائل کارڈ یاموٹر وے سے ایک آدھ روپے کا ٹیکس لگا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
تحریر: کے ایم خالد