تحریر: حفیظ خٹک
دو سو سے زائد ممالک میں چند ہی ممالک ہیں جو ایٹمی دھماکے کر نے کے بعد اگلی صفوں میں کھڑے ہوگئے ہیں ۔ ان چند ممالک اور50سے زائد کے اسلامی ممالک میں واحد اسلامی ملک پاکستان ہے جواسی صف میں کھڑا ہوچکا ہے ۔ اس صف میں شامل ہوئے بھی اسے مدت ہوگئی ہے۔ ایٹمی قوتوں کے حال دیکھے جائیں ان کا تجزیہ تعریفی اور تنقیدی بنیادوں پر کیا جائے تو یہ نقطہ سامنے آتا ہے کہ وہ ریاستیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں ۔ اس استحکام میں ان کا ساتھ ان کی اپنی رعایا ، اپنی سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کی پالیسیوں کے ساتھ ان کے لئے اچھے جذبات رکھنے والے ممالک نے بھی دیا ہے۔ اس سفر میں وہ آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور کسی حد تک اپنے ساتھ وہ دیگر ممالک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
وطن عزیز نے جب پہلی بار ایٹمی دھماکہ کیا تو ملک میں خوشی کی لہر تھی اور یہ لہر تمام اسلامی ممالک میں نظر آرہی تھی۔ ایٹمی دھماکے کے بعد اس دن کا نام تجویز کرنا اور اسے رکھنا اک معاملہ تھا جس میں اس وقت کے وزیر اعظم جو کہ آج کے بھی وزیر اعظم ہیں انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ نام تجویز کریں ،عوام نے اپنی پسند کے نام وزیراعظم کو بھجوائے اور لاکھوں نام میں ایک نام یوم تکبیر کو پسند کر کے رکھ لیا گیا ۔ وہ نام شہر قائد ہی کے ایک طالبعلم کی جانب سے بھیجا گیا تھا ۔ 28مئی کو اس دن کے بعد سے ہر سال ایک قومی دن کی حیثیت سے ہر سال منایا جاتا ہے حکومت کے سربراہ اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اس کی ترقی کا سفر تیزی سے آگے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس ملک کے دفاع کیلئے اس کے نام کو روشن کرنے کیلئے ہر پاکستانی کو محب وطن ہونے کا عملی مظاہرہ اپنے کاموں کے ذریعے سرانجام دیا ہوگا۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک کی عوام اپنے انداز میں اس ملک کی خدمت کر رہی ہے اور خدمت کا یہ انداز نت نئے اندازوں میں جاری ہے اور جا ری رہے گا۔ تاہم ایک نقطے پر ہی اگر غور کر لیا جائے کہ ایٹمی قوتوں کے حکمرانوں کا کیا حال رہا ہے ، موجود حالات میں کس طرح سے ہے اور ان دونوں حالوں کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے متعلق پیشن گوئی کی جاسکتی ہے۔ لیکن جب ان میں ایٹمی قوت پاکستان کا نام آتا ہے اس کے حکمرانوں کا حال آتا ہے تو کیفیت ناقابل بیاں سی ہوجاتی ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کا نا م ضرور اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اس کا حصول بھی لاکھوں انسانی قربانیوں کے بعد ہی ممکن ہوسکا لیکن قیام سے آج تک یہاں اسلام کا نظام مکمل طور پر نافذنہیں ہوسکا ہے۔
اسلام پر حاصل ہونے والے اس واحد نوعیت کے ملک میں آج سیاسی جماعتوں سے زائد اسلامی جماعتیں میدان سیاست میں سرگرداں ہیں۔یہ بھی ایک الگ اور حساس نوعیت کا ہی موضوع ہے۔اس وقت جو نقطہ سامنے ہے وہ یہی ہے کہ ایٹمی قوت پاکستان دیگر ایٹمی قوتوں کی صف میں تو کھڑا ہے لیکن اس اور ان تمام ایٹمی قوتوں کی صورتحال میں زمین و آسماں تک فرق ہے اور سوال آج ہر محب وطن پاکستانی کے لبوں پر ہے کہ یہ فرق کیونکر ہے؟ہم اس قدر غریب کیونکر ہیں ؟ تعلیمی میدان میں ہی دیکھ لیں تو دنیا میں ہمارا نمبر 175واں کیوں ہے؟ صحت کے میدان بھی ہم پولیو زدہ کیوں ہیں؟جبکہ ایسے نوجوان موجود ہیں جو کہ اپنی زندگی میں 70 بار تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کو اس لئے خو ن دے چکے ہیں کہ پاکستان کو تھیلے سیمیا فری پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔اس کے باوجود ملک کی مجموعی صحت کی صورتحال ابتر ہے۔
اس ملک کا وزیر اعظم سال میں اتنے دورے دیگر ممالک کے نہیں کرتا جتنا وہ اپنے معمولی سے چیک اپ کیلئے برطانیہ کا سفرکرتا ہے۔اس ایٹمی قوت کی ایسی صورتحال کیوں ہے؟آخر تیسری بار اس ملک کی عوام نے اسے وزیر اعظم چنا لیکن اس کے باوجود یہ اپنے گذشتہ ادوار کو مدنظر رکھنے کے باوجود آج کے دور میں بھی شکست خوردہ کیوں ہے؟یہ کیوں کر اپنے ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتا ؟ اسے یہ یاد ہے کہ کس انداز میں اس ملک کا ایک آمر جنرل ضیاء الحق اسے میدان سیاست میں لایا تھا تب سے اب تک متعدد بار پنجاب میں اور تیسری بار پورے ملک میں حکمرانی کا موقع ملنے کے باوجود اس قدر بے حس کیوں ہے؟آج بھی یہ وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب یوم تکبیر کے اہم ترین موقع پر ملک سے باہر کیوں ہیں؟ اپنے اوپر لگنے سے بڑھ کر حقیقت کے روپ میں سامنے والے حالات میں بھی ، انہیں سامنا کرنے اور اس کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس سے فرار کا راستہ کیوں کر اختیار کر رہا ہے؟
وہ فضل الرحمان جو ہر حکومت کا ایک مخصوص حصہ بن کر حکومت میں شامل رہے ہیں آج یہ میاں نواز شریف صاحب ان کے سہارے کوئی تیسراراستہ کیوں کر تلاش کرتے کرتے لندن پہنچے ہوئے ہیں؟وہ سابق صدر جو ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا ایک عدد نامی گرامی چیئرمین بھی ہیں ،وہ بھی ان حالات میں ملک کے اندر حالات و واقعات کو سامنے سے دیکھنے اور اسے سہنے کے بجائے اس ملک سے باہر کیوں کر بیٹھے ہیں؟پناما لیکس کے معاملات سے بچنے کیلئے کیا وہ میاں نواز شریف کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہوجائیں گے؟یا یہاں بھی کچھ دو اور کچھ لو کی سیاست ہوگی ؟
وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد جہاں میاں صاحب کی کمپنیوں میں انتہا درجے کا اضافہ ہوا وہیں کاش کہ ملک کی کمپنیوں میں بدرجا اضافہ ہوتا لیکن نہیں میاں صاحب کو نظر یہ ضرور آتا ہے کہ ملک میں شاہراہیں اور پل بن رہے ہیں اور ان میں لوہا بڑی مقدار میں استعمال ہورہاہے ،اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ لوہا ملک کے اسٹیل مل کا استعمال ہورہا ہے یا نہیں۔ وہ بھلے نقصان زدہ ہوجائے اور اس سے اس قدر نقصان ہو کہ اس کے ملازمین کو تنحواہیں نہ مل رہی ہوں اور ایسی صورتحال میں اس کو بیچ دیں گے اس عمل سے ملک کو فائدہ ہوگا۔ پل و سڑک و عمارتین نہیں رکنی چاہئیں۔ ان میں لوہا میاں صاحب کی اپنی کمپنیوں کا جو بھی اور جس قدر بھی استعمال ہو اسے ہونا چاہئے ۔اس سے ملک کو نہ سہی میاں صاحب کو تو ان کے بچوں کو تو فائدہ ہوگا نہ۔ لہذا ایسے اقدام ہونے چاہئیں جس سے ملک کو نہیں میاں صاحب کی ذات کو فائدہ ہو۔ عوام کو بس صبر کرنا چاہئے اور انہیں ووٹ دیکر دوبارہ وزیر اعظم بنانا چاہئے تاکہ وہ ملک کو اور بہتراسی اندازمیں سنبھالیں۔
28مئی کو جب برسوں قبل ایٹمی دھماکہ کیا گیا تو میاں صاحب نے عوام سے اس دن کا نام مانگا جس پر عوام نے بڑی تعداد میں اپنی پسند کے نا م بھجوائے اور شہر قائد کے اک نوجوان مجتبی کا بھیجا ہوا نام یوم تکبیر پسند کیا گیا اور اسی کو ہی 28مئی کے دن کیلئے رکھ لیا گیا اب پوری قوم کو یہ بات معلوم ہے کہ یوم تکبیر کب منایا جاتا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے۔نہیں معلوم تو حکمرانوں کو خاص طور پر میاں نواز شریف کو ہی یہ معلوم نہیں کہ یہ نام کس نے پیش کیا تھا اور نہ ہی آج تک ا س نوجوان کو میاں صاحب نے اور نہ ہی انکی جماعت کے کسی اور رکن نے نوازا ۔ وہ نوجوان تو آج بھی اس بات پر فخر محسوس کرتا ہے کہ ایٹمی دھماکے والے دن کانام یوم تکبیر اس نے رکھا ۔ اس کا یہ کارنامہ تو یاد رکھا جائیگا لیکن اس کے ساتھ میاں صاحب کا اس نوجوان کے ساتھ کردار بھی یاد رکھا جائیگا۔میاں صاحب اپنے پہلے دور میں جو کارنامے سرانجام دیئے بھی پوری قوم کو یاد ہیں ،پیلے رنگ کی نظر آنے والی ٹیکسی کو دیکھتے ہی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نواز شریف کے دور میں لائی گئی تھیں،اس کے کیافوائد ہوئے اور نقصانات کا کیا عمل رہا اس کے ساتھ میاں صاحب کا کردار بھی اور نمایاں ہوجاتا ہے۔
اسی وجہ سے میاں صاحب کو عوام نے دوسری بار بھی اپنے قیمتی ووٹ دے کر ملک کا وزیر اعظم منتخب کیا اور اس دوسرے دور میں عوام کو پنامہ لیکس کی طرح یاد ہے کہ میاں صاحب نے ایک نعرہ دیا تھا وہ نعرہ تھا قرض اتارو ،ملک سنوارو،اس قرض اتارنے کی مہم میں بھی عوام نے بھرپور قربانیاں دیں۔لیکن نواز شریف کے اپنے اعمال کے سبب انہیں دوسرا دور مکمل نہیں کرنے دیا گیا۔ملک سے دور گئے اور کس طرح گئے کیا ، کیا وعدے کر کے گئے اور جانے کے بعد کس شان سے رہے ،انہیں بھی یا د ہوگا اور ملک کی عوام کو بھی یاد ہے کہ ایٹمی قوت کے وزیر اعظم کس انداز میں جیت کے آگے بڑھتے ہیں۔
میاں صاحب جب تیسری بار انتخابات لڑ رہے تھے تو انہوں نے ملک کی ایک بیٹی جو ناکردہ گناہوں کی طویل سزا امریکی جیل میں کاٹ رہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ،ان کے نام پر عوام سے وعدے کر کے ووٹ حاصل کئے۔ پھر اسی عوام کو یہ بھی یاد ہوگا کہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب وہ وزیراعظم بن جائیں گے تو سب سے پہلے شہرقائد جائیں گے اور جائیں گے بھی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے گھر اور ان کے گھر جاکر ان کی والدہ ،بہن اور بچوں سے وعدہ کریں گے کہ امریکہ جاکر وہ ہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی باعزت رہائی کی بات امریکی صدر سے کریں گے۔شہر قائد وہ آئے اور گورنر ہاؤس میں اہل خانہ ڈاکٹر عافیہ کو بلواکر انہیں شرف ملاقات بحشا ، کیا ہوا جو وہ گلشن اقبال میں ان کے گھر نہیں گئے۔ انہیں گورنر ہاؤس بلا لیا اور وہیں ان سے ملاقات کی اور وعدہ کیا کہ اب کی بار جب وہ امریکہ جائیں گے تو واپسی پر ڈاکٹر عافیہ کو ساتھ لے کر آئیں گے ۔لیکن میاں صاحب نے آج تک اپنے بے شمار وعدوں کی طرح اس وعدے کے بھی پورا نہیں کیا ۔آج یوم تکبیر کے موقع پر اہل خانہ ڈاکٹر عافیہ ہی نہیں یہ بات پوری قوم پوچھتی ہے کہ آخر کیوں میاں نواز شریف نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا؟یہ کیسا ایٹمی قوت ملک کا وزیر اعظم ہے جو اپنی بات کو ، اپنے وعدے کو پورا نہیں کرتا ؟
کیا دیگر ایٹمی قوتوں کے صدر و وزیر اعظم بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے؟ اسی وزیر اعظم کا ایک بھائی انتخابات میں عوام سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ ہم جیتنے کے بعد آتے ہی ملک میں بجلی کے مسئلے کو حل کردیں گے لیکن ان یہ وعدہ بھی آج تک عوام پورا ہونے کا خواب دیکھ رہی ہے۔پنامالیکس کی خبریں آنے لگیں وزیر اعظم کے بچوں کے نام بھی سامنے آگئے ان سے تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں نے یہ تقاضا کیا کہ وہ ان کے سوالات کے جواب دیں لیکن سب ہی جانتے ہیں کہ ایٹمی قوت کے وزیر اعظم نے کیسا خوبصورت عمل کیا ۔ انہوں نے دو تقاریر ٹی وی و ریڈیو پر عوام کے سامنے کیں اور ایک تیسری تقریر اسمبلی میں اراکین کے سامنے کی لیکن ایٹمی قوت کے وزیر اعظم کی تقریر کہیں بھی تسلی بحش نہ تھی۔اب تو صورتحال یہ تک ہوگئی ہے کہ وہ ایک جگہ کا افتتاح کئی کئی بار کرنے لگ گئے ہیں اور تقاریر بھی ان کی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف ہوتی ہیں ۔یہاں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اس لئے ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایٹمی قوت کے سربراہ ہیں؟
ایٹمی قوت کا وزیر اعظم ایسا نہیں ہونا چاہئے ، اور اگر اسے ایسا ہونا حق محسوس ہوتا ہو تو اسے یہ بھی سمجھ جانا چاہئے کہ وہ جس جیت کو اپنی جیت سمجھ رہا ہے وہ جیت نہیں ، ہرگز وہ جیت نہیں وہ اگر بظاہر اس کیلئے جیت ہے تو اس کو اپنی تقاریر کا ایک جائزہ بھی ضرورکر لینا چاہئے ، اپنے چہرے کو ، اپنے الفاظوں کے ساتھ اپنے پسینے کو بھی ایک نظر ضرور دیکھنا چاہئے اور پھر چندلمحوں کیلئے ہی سہی ان صدور کو ، ان وزرائے اعظموں کوبھی دیکھ لینا چاہئے کہ کہیں ان میں اور ان میں کوئی فرق تو نہیں؟ اگر وہ جیتے ہیں تو جیتے تو یہ بھی ہیں لیکن اس حقیقت کا احساس انہیں ایک دن ضرور ہوکر رہے گا کہ وہ جیتے نہیں ہیں وہ ہار ے ہیں اور وہ جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔ ایٹمی قوت پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب ، آپ جیتے نہیں ہیں ،آپ تو جیت کر بھی ہار گئے ہیں ۔
تحریر: حفیظ خٹک
hafikht@gmail.com