24 سالہ ترونا اشوانی کو پہلی ای میل جمعے کی صبح نو بجے موصول ہوئی جب انھیں کیون جان نامی ایک شخص کی جانب سے یہ پیغام ملا جسے وہ نہیں جانتی تھیں۔ یہ پیغام پڑھ کر ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
جان نے پیغام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس اشوانی کی برہنہ تصاویر اور ویڈیوز ہیں، جو اس نے آئی کلاؤڈ سے حاصل کی ہیں۔ اشوانی نے یہ تصاویر اپنے بوائے فرینڈ کے لیے بنائی تھیں جو پانچ سال سے ان کے دوست تھے۔
جان نے دھمکی آمیز پیغام میں کہا: ‘اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں خاموش رہوں اور دنیا کو سوشل میڈیا پر آپ کے دوستوں اور خاندان والوں اور آپ کے ساتھ کام کرنے والوں کو نہ بتاوں تو آپ کو مجھے خوش کرنا ہو گا۔’ اس نے اشوانی کو اس طرح کی مزید ویڈیوز بھیجنے کو کہا۔
اشوانی انڈین شہری ہیں اور اس وقت امریکی ریاست میری لینڈ میں رہتی ہیں۔ انھوں نے یہ ای میل موصول ہونے کے فوراً بعد امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے سائبر کرائم شعبے میں شکایت درج کروا دی۔
لیکن ایف بی آئی کی طرف سے کوئی جواب موصول ہونے سے قبل ہی انھیں جان کی طرف سے ایک اور ای میل ملی۔ اس میں مزید دھمکیاں دی گئی تھیں۔ اس کے ساتھ اشوانی کے جاننے والوں کی ایک پوری فہرست تھی جن کو جان نے اشوانی کی ویڈیوز بھجوانے کی دھمکی دی تھی۔ یہ اسی رات نو بجے ان کے ان باکس میں آئیں۔ اشوانی کا کہنا ہے کہ اس وقت انھوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ انھیں کیا کرنا ہے۔
اشوانی نے بی بی سی ٹرینڈنگ کو بتایا: ‘میں خاموش بیٹھ کر انتظار نہیں کر سکتی تھی کہ وہ کچھ اور کرے۔’
انھوں نے کہا کہ انھیں خود ہی کچھ کرنا تھا اور جلد ہی کرنا تھا۔ ‘یہ شخص خطرناک معلوم ہوتا تھا اور میرے پاس وقت کم تھا۔‘ اسی لیے اشوانی نے اپنے بوائے فرینڈ کو اعتماد میں لے کر اس بارے میں سب کو بتانے کا فیصلہ کیا۔
اشوانی نے فیصلہ کیا کہ وہ جان کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گی۔ انھوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور فیس بک پر ایک پبلک پوسٹ میں بلیک میلنگ کا انکشاف کیا جسے چار ہزار مرتبہ شیئر کیا گیا اور اس پر 18 ہزار رد عمل آئے۔ انھوں نے جان کے دھمکی آمیز پیغامات پوسٹ کیے اور اس کی ای میل کا پتہ بھی دے دیا۔
اشوانی نے اپنی پوسٹ میں لکھا: ‘یہ ویڈیوز اور تصاویر میرے لیے شرمندگی کا باعث تو ہیں لیکن یہ میرے بوائے فرینڈ کے لیے تھیں۔ میں نے اس شخص کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔’
انھوں نے مزید کہا کہ اس شخص کی دھمکیوں سے ڈرنے کی بجائے وہ اس کے سامنے کھڑی ہوں گی تاکہ اور خواتین کو بھی حوصلہ ملے اور وہ اس طرح کے عناصر سے بلیک میل نہ ہوں۔
اشوانی نے کہا کہ شروع میں تو خود کے لیے سائبر جرائم اور بلیک میلنگ کے خلاف کھڑی ہوئی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ انھیں بے شمار لڑکیوں کی جانب سے پیغامات وصول ہوئے جو اس طرح کی صورت حال کا شکار تھیں۔ ان پیغامات موصول ہونے کے بعد اشوانی کے مطابق انھیں یہ احساس ہوا کہ وہ صرف اپنے لیے نہیں لڑ رہیں بلکہ بے شمار دوسری لڑکیوں کو بھی اس سے حوصلہ مل رہا ہے۔
اشوانی کو موصول ہونے والے پیغامات کی اکثریت مثبت اور حوصلہ افزا پیغامات پر مشتمل تھی، البتہ کئی لوگوں نے منفی پیغامات بھی بھیجے۔
کچھ لوگوں نے انھیں جسم کی نمائش کرنے والی اور شہرت کی بھوکی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ جو انھیں فاحشہ قرار دے رہے تھے ان کے لیے یہ پیغام ہے کہ اس طرح کی تصاویر لینا ایک عام بات ہے۔
‘اگر آپ کا تعلق کسی ایسے شخص سے جو آپ سے دور ہو تو آپ اس طرح کی تصاویر اپنے پارٹنر کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ یہ کوئی غیر فطری اور غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ایسی ہی منفی سوچ کے لوگوں کی وجہ سے بہت سے خواتین خاموش رہتی ہیں اور شرمندہ ہوتی ہیں۔’
اشوانی نے کہا کہ انھیں اپنے بوائے فرینڈ، اپنے دوستوں اور ممبئی میں رہنے والے اپنے گھر والوں سے بھرپور حمایت اور مدد ملی اور انھوں نے ایک مرتبہ بھی یہ سوال نہیں کیا کہ انھوں نے اس قسم کی تصاویر یا ویڈیوز کیوں بنائی تھیں۔
‘میرے والدین شروع میں پریشان تھے اور اپنے آپ کو بےبس محسوس کر رہے تھے کیونکہ وہ میرے پاس موجود نہیں تھے لیکن وہ میری مدد اور میری حفاظت کرنے کے لیے مکمل طور پر میرے ساتھ تھے۔’ انھیں بھی اس چیز کا احساس تھا کہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ اس طرح کی تصاویر شیئر کرنا عام سی بات ہے۔
اشوانی کے بقول ان کے والدین کے رد عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا کس قدر کھلے ذہن کا حامل ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کے والدین کو اندازہ تھا کہ وہ ڈرنے والی نہیں ہیں۔ ‘میں گھر میں بھی اپنے حق کے لیے لڑ جاتی تھی اور اپنی کہانی عام کرکے میں نے بالکل وہی کیا تھا۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ ٹھیک ہیں تو آپ کو کھڑا ہو جانا چاہیے۔
‘مجھے امید ہے کہ یہ سوچ بدلے گی کہ کچھ کرنے سے پہلے آپ اس فکر میں رہیں کہ لوگ کیا سوچیں گے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کیا سوچیں گے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ٹھیک ہیں تو آپ کو اپنے لیے کھڑا ہو جانا چاہیے۔’
اشوانی اگر انڈیا میں ہوتیں تو کیا تب بھی وہ ایسا ہی کرتیں؟
‘ہاں بالکل۔ میں بہت خوش ہوں کہ انڈیا میں بھی لوگوں نے میری حمایت کی ہے اور شور مچنے سے ممبئی پولیس پر دباؤ بڑھا ہے کہ وہ کارروائی کریں۔
ممبئی پولیس اور ایف بی آئی سائبر کرائم نے کیون جان کی شناخت معلوم کرنے کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔