ن سے نحوست جاتے جاتےبھی “آئی لو یو ٹو” کرگئی۔ بیرونی قرضوں کے بعد ڈالر ڈارلنگ بھی اپنی اور روپے کی مشترکہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ایسی دھمال میں مصروف ہے جس کی دھمک اوپر سے نیچے ہر جگہ محسوس کی جارہی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا کہ ابھی تو ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کی قسط بھی چکانی ہے۔
نوازشریف وہ نشہ ہے جس میں مدہوش ہو کر ڈیزل 6.55، پٹرول 4.26اور مٹی کا تیل 4.46 روپے بڑھ گیا۔ اس سب کے سائیڈ ا ور آفٹرافیکٹس جہاںجہاں تک جائیں گے وہاں وہاں سے سریلی چیخوںکی آوازیں آئیںگی….. ’’روک سکو توروک لو‘‘۔ چیخوں سے یاد آیا پچھلاالیکشن تو آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ انتخابی مہم کےدوران میں تسلسل سے یہ عرض کرتا رہا کہ اگر ن لیگ جیت گئی تو عوام کی چیخیں مریخ تک سنائی دیںگی۔ آج بیرونی قرضوں کو اندرونی مہنگائی کے ساتھ مکس کرکے دیکھیں تومیرے خدشات کی چھوٹی موٹی تصدیق تو ہو ہی جائے گی لیکن بہتری یہ ہوئی کہ عوام کے ساتھ ساتھ خود ان کی اپنی چیخیں بھی مریخ تک سنی جاسکتی ہیں۔ان کی تازہ ترین چیخ تازہ ترین پریس کانفرنس میں سنی گئی۔ محاورہ تو یہ ہے کہ برے وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ یہاں تو وکیل تک پیروی چھوڑگیا جس کے بارے میں ’’رپورٹ کارڈ‘‘ کی ٹیم سے لے کر چوہدری اعتزاز احسن تک سب اس نتیجہ پر پہنچے ہیںکہ خواجہ حارث نوازشریف کے کہنے پر دستبردارہوئے جسے عام زبان میں ملی بھگت بھی کہا جاسکتا ہے۔ میاں صاحب کی پریس کانفرنس کا نچوڑ، سمری، باٹم لائن یہ کہ انہیں ’’دفاع‘‘ کے حق سے محروم کیاجارہاہے۔
بہت سے دوسرے زیرالتوا کیسز کی موجودگی میں فوکس ان کے کیس پر ہے تو بندہ پوچھے اور ایسے کتنے ہیں جوتین تین بار اس ملک کے وزیراعظم رہ چکے؟ اور کیا یہ وہ واحد اور خاص قسم کا کیس نہیں جو کسی لوکل نہیں، اک انٹرنیشنل سکینڈل کے نتیجہ میںسامنے آیا اور ’’جناب سپیکر!‘‘ اگرانہیں حق دفاع نہیں ملا تو پھر حق دفاع ہوتا کیاہے؟ مسئلہ یہ کہ دفاع میں کہنے کو ہے کچھ نہیں۔ میاں صاحب روز ِ اول سے طلسم ہوشربا، الف لیلہ، داستان امیرحمزہ، سندباد جہازی جیسی کہانیاں تو بہت سنارہے ہیں جبکہ مسئلہ صرف ایک ننھی منی معصوم سی منی ٹریل کا ہے۔ ’’دفاع‘‘ میں کچھ ہوتا توشاید ایک دن، ایک پیشی ہی کافی ہوتی اور اگر ہے ہی کچھ نہیں توایک صدی بھی ناکافی ہے حضور! اچھے سے اچھا وکیل ہو یا ماہر معاشیات….. ’’جادوگر‘‘ بہرحال نہیں ہوتے۔تکیہ کلام بنا رکھا ہے کہ….. ’’ایک روپے کی کرپشن ثابت نہیںہوئی‘‘ یا ڈھٹائی ترا آسرا۔ مجھ جیسے کودن سمیت بچہ بچہ جانتا ہے کہ چور چوری کرتے، کرپٹ کرپشن کرتے، راشی رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں نہ بھی پکڑا جائے تو اثاثوںکی شکل میں مال مسروقہ کی نشاندہی پر دھر لیا جاتا ہے تو یہی بنیادی سوال پوچھا جاتا ہے کہ کہاں سے لائی ہو یہ جھمکے؟ کس نے دیئے ہیں یہ جھمکے؟
اور کیا کہہ رہے ہیں یہ جھمکے؟ کہاں گئے وہ ’’ذرائع‘‘ جن کےبارے مقدس ایوان میں خم ٹھونک کر کہا تھا۔’’جناب سپیکر! یہ ہیں وہ ذرائع…..‘‘ آئیں بائیں شائیں قصے، کہانیاں، جگتیں، تقریریں چھوڑیں وہ’’ذرائع‘‘ پیش کریں جن کاذکر اسمبلی میں کیا تھا۔اک منی ٹریل کا سوال ہے بابو! اک روپے کی کرپشن کاثبوت نہیں لیکن اس ایون فیلڈ کا کیاکریں؟ اسے کس کھاتے میں ڈالیں؟ ’’چوری میرا پیشہ نماز میرا فرض‘‘ جیسا ڈائیلاگ فلم ’’سرفروش‘‘ میں تو چل گیا تھا سیاست اور عدالت میں نہیں چلتا۔ابھی تو رکھ رکھائو وضعداریوں کا ماراہوا چوہدری نثار علی خان چپ ہے، زیادہ سے زیادہ بولا تو صرف اتنا کہ….. اگر میں نے منہ کھولا تو نواز شریف منہ دکھانے کے قابل نہیںرہیں گے‘‘ پہلے کون سا منہ دکھانے جوگے رہ گئے ہیں کہ سرزمین حجاز سے لے کر لندن تک تو آوازے کسے جاتے ہیں۔ اوپرسے یہ ظالم ’’نیب‘‘ جو وزارت ِ خارجہ کو خط لکھتی یا لکھتا ہے۔’’فیصلہ قریب ہے۔ شریف فیملی کو باہر نہ جانے دیاجائے۔ نواز، مریم، صفدر کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا جائزہ لیں۔ نیب ریفرنس پر ٹرائل حتمی مراحل میںہے۔‘‘ان ’’حتمی مراحل‘‘ کے بعد ان شاء اللہ ملک بھی اک ایسے مرحلے میں داخل ہوجائے گاجس کامدتوں سے انتظارتھا۔