تحریر: شاہ فیصل نعیم
بہت سی حیوانی مخلوقات جو زمانہ قدیم میں ہوتی تھیں آج معدوم ہوچکی ہیں۔ شاید تب کے انسان نے انہیں بتایا ہو گا کہ اب آپ کا ختم ہونا ہی ضروری ہے کیونکہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب آپ کا کام انسان خود ہی بطریقِ احسن کرلے گا۔ میں ایسے معاشرے میں رہتا ہوں جہاں ہر انسان پڑھا لکھا نہیں ہے، ناہی اُس کے پاس کوئی بہت زیادہ دولت کے انبار ہیں، وہ صبح پیٹ بھر کر کھاتا ہے تو رات کے لیے پریشان ہے اور شام کو کھا لیا تو صبح کی فکر دامن گھیر لیتی ہے، اُس کی جیب اجازت نہیں دیتی کہ وہ بڑے ڈاکٹروں کے پاس جا سکے وہ تو گلی محلے میں کھلے میڈیکل سٹورز اور کلنیکس سے چار پیسے کی دوا لیکر دل کو تسکین پہنچا لیتا ہے اور اگر بڑی چھال ماری تو قریبی سرکاری ہسپتال میں جا پہنچا وہ بھی تب جب بیماری آخری مراحل میں ہو۔
جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ ہر انسان پڑھا لکھا نہیں ہے اور اگر پڑھا لکھا ہو بھی تو اُسے دواؤں کا علم نہیں ہے بس جو ڈاکٹر لکھ کر دیتا ہے وہ سٹور سے لے کر کھا لیتا ہے۔ اب ڈاکٹراور دوا دینے والے پر مریض کے اعتماد کو یقین کہتے ہیں۔ دوا کھانے والے کو نہیں پتا کہ وہ کیا کھا رہا ہے اُسے جو پتا ہے وہ یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے کھانے کو کہا ہے تو کھا رہا ہوں اگر کوئی اُس سے پوچھے تو بھی اُس کا جواب یہی ہو گا۔
مگر آج کل ڈاکٹر چند پیسوں کے کمیشن کی خاطر مریضوں کے اس یقین کا خون کر رہے ہیں وہ میڈیکل سٹور والوں کے ساتھ مک مکا کے ذریعے زندگی کی بھیک مانگتے انسانوں کو جعلی دوائیں دے رہے ہیں جو شفا کی امید لیے گئے مریضوں کی زندگیوں میں زہر گھول رہی ہیں۔ بہت سے ایسے میڈیکل سٹورز ہیں جہاں پرسٹور کیپر دوا دینے سے پہلے آنے والے سے پوچھتا ہے: “جناب ایک نمبر دوں یا دو نمبر”؟ آج کل تو کوئی زہر خریدنے جائے تو اُسے بھی پوچھا جاتا ہے: “ایک نمبر زہر چاہیے یا دو نمبر”؟ اب خریدنے والا حیران ہوکر پوچھتا ہے: “زہر بھی ایک نمبر اور دو نمبر ہوتا ہے”؟ تو دکان دار اسے جواب دیتا ہے:
“جی جناب ! دو نمبر زہر وہ لیتے ہیں جنہوں نے مرنے کا ڈرامہ کرنا ہوتا ہے اور ایک نمبر اُن کے لیے جو واقعی مرنا چاہتے ہیں”۔ میں سوچتا ہوں کہ انسان کے پاس کوئی ہزاروں یا لاکھوں زندگیاں نہیں صرف ایک زندگی ہے تو خدا کے بندوں ایک انسان کو اُس کی زندگی جی لینے دو ایک ہی تو زندگی ہے کتنا کو وہ جی لے گا 60،50 یا حد 100 سال ۔۔۔۔۔تو جی لینے دو اُس کو چلے تو اُس نے جانا ہی ہے تو تم کیوں اُس کی زندگی میں زہر گھول رہے ہو۔
تحریر: شاہ فیصل نعیم