23 اکتوبر کو جناب ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی والدہ، جناب آصف علی زرداری کی خوش
دامن اور چیئرمین بلاول بھٹو کی نانی، بیگم نصرت بھٹو کی 5ویں برسی تھی۔ کہیں کہیں پیپلزپارٹی نے ان کی برسی منائی۔ بیگم نصرت بھٹو کسی دور میں پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن تھیں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور میں (دسمبر 1993ءمیں) پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کیا اور اجلاس میں والدہ محترمہ کو برطرف کیا اور خود چیئرپرسن شپ سنبھالی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو کو اُس اجلاس کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دی گئی تھی۔
بیگم نصرت بھٹو کا انتقال 23 اکتوبر 2011ءکو ہوا۔ اُس وقت اُن کے پاس پیپلزپارٹی کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو ”مادرِ ملت“ کا خطاب دیا تھا۔ جناب آصف زرداری صدرِ پاکستان تھے تو انہوں نے بیگم نصرت بھٹو کو ”مادرِ جمہوریت“ کا خطاب دے دیا۔ بیگم نصرت بھٹو ایرانی نژاد تھیں۔ وہ نصرت اصفہانی کہلاتی تھیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 8 دسمبر 1951ءکو اپنی پہلی بیگم امیر بیگم کی زندگی میں ہی محترمہ نصرت اصفہانی سے شادی کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی 3 نومبر 1969ءکو جناب بھٹو کے دو اڑھائی سو دوستوں اور عقیدت مندوں نے گلبرگ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر قائم کی اور جناب بھٹو کو متفقہ طور پر پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا۔ پارٹی کی ہائی کمان کی صورت میں چیئرمین بھٹو نے (اُصولی کمیٹی) بنائی۔ اُصولی کمیٹی کے کل چار ارکان تھے۔ -(1) ذوالفقار علی بھٹو۔ -(2) جناب جے۔اے رحیم۔ -(3) جناب محمد حنیف رامے اور -(4) ڈاکٹر مبشر حسن۔ چیئرمین بھٹو نے جناب جے۔اے۔ رحیم کو پارٹی کا مرکزی سیکرٹری جنرل نامزد کر دیا تھا۔ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے سارے ارکان بھی چیئرمین بھٹو کے ہی نامزد کردہ تھے۔ بھٹو صاحب نے بیگم نصرت بھٹو کو اُس کمیٹی کا رُکن نامزد کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
پورے ملک (چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر) میں اوپر سے لے کر نیچے تک چیئرمین تمام عہدیدار بھٹو یا اُن کے نامزد عہدیداروں کے نامزد کردہ تھے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چار رہنما اصول تھے۔ ”-(1) اسلام ہمارا دین ہے۔ -(2) جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ -(3) سوشلزم ہماری معیشت ہے اور -(4) طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں“۔ چیئرمین بھٹو نے اپنی پارٹی میں ”جمہوریت ہماری سیاست ہے“۔ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جب تک زندہ رہے۔ پارٹی میں انتخابات نہیں کرائے۔ 1972ءمیں (پیپلزپارٹی کے قیام کے 5 سال بعد) لیاقت باغ راولپنڈی میں جناب بھٹو کی صدارت میں ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا۔ پورے ملک سے پارٹی کے ہر سطح کے نامزد قائدین اور عہدیدار شریک تھے۔ اس جلسہ¿ عام میں زیادہ تر مقررین نے اپنی تقریروں میں درخواست کی کہ ”جناب چیئرمین! اب ہم آپ کو تاحیات پارٹی کا چیئرمین منتخب کرانے کے لئے تیار ہیں لیکن براہِ مہربانی آپ پارٹی میں ہر سطح کے باقی عہدیداروں کا انتخاب کرائیں!!!
چیئرمین بھٹو نے پارٹی میں انتخابات کرانے کا وعدہ کر لیا تھا۔ اپریل 1976ءمیں بیگم نصرت بھٹو کی نگرانی میں پورے پاکستان (چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر) میں صرف پاکستان پیپلزپارٹی (شعبہ خواتین) کے ہر سطح پر انتخابات کرائے لیکن منتخب عہدیداروں کو کوئی اختیار نہیں دیا۔ ہر سطح پر پارٹی کا شعبہ¿ خواتین، مردوں کی پیپلزپارٹی کے عہدیداروں کے ماتحت ہی رہا۔ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر اُن خواتین کو پارٹی ٹکٹ دے کر منتخب کرایا گیا جو انتخابات میں شکست کھا گئی تھیں۔ ”بابائے سوشلزم“ شیخ محمد رشید پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر تھے۔ چیئرمین بھٹو نے انہیں پارٹی کا سینئر وائس چیئرمین نامزد کر دیا۔ معروف قانون دان میاں محمود علی قصوری 1970ءکے عام انتخابات سے پہلے پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے۔ چیئرمین بھٹو نے انہیں بھی وائس چیئرمین نامزد کر دیا۔ بھٹو صاحب نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں بڑے ملزم کی حیثیت سے جیل گئے تو انہوں نے بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن (قائمقام) نامزد کر دیا۔
بیگم نصرت بھٹو اُس وقت بھی پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی رکن نہیں تھیں۔ پارٹی اساس دستور میں ”شریک چیئرپرسن“ کا عہدہ نہیں تھا لیکن بیگم نصرت بھٹو نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شریک چیئرپرسن نامزد کر دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب دسمبر 1993ءمیں والدہ محترمہ کو برطرف کر کے / کراکے خود چیئرپرسن شپ سنبھالی تو انہوں نے کسی بھی مرد اور عورت کو پارٹی کا شریک چیئرمین / چیئرپرسن نہیں بنایا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے ”شوہرِ نامدار“ کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دیا تھا۔ 27 دسمبر 2007ءکو محترمہ کا قتل ہوا تو جنابِ زرداری نے اُن کی ”برآمدہ“ وصیت کے مطابق اپنے 19 سالہ بیٹے کو ”بھٹو“ کا خطاب دے کر پارٹی کا چیئرمین نامزد کر دیا۔ ”شریک چیئرمین“ کا عہدہ بحال کیا اور خود شریک چیئرمین بن گئے۔
جناب آصف زرداری کے والد جناب حاکم علی زرداری 1970ءکے عام انتخابات میں بھٹو صاحب کی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر نواب شاہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور پھر خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ 1985ءکے غیرجماعتی انتخابات میں جناب حاکم علی زرداری اور جناب آصف علی زرداری نواب شاہ سے قومی اور صوبائی کی نشستوں سے امیدوار تھے۔ دونوں ہار گئے تھے ۔ جناب آصف زرداری کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی ہوئی تو جناب حاکم علی زرداری اور جناب آصف علی زرداری نے جناب بھٹو کو ”شہید“ کہنا شروع کیا اور ”بھٹو ازم“ کو ہی عوام کی مشکلات کا حل قرار دیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار وزارتِ عظمیٰ سے برطرف ہوئیں اور آصف زرداری صاحب کو گرفتار کیا تو جناب حاکم علی زرداری نے کراچی اور پھر لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”بے نظیر بھٹو، آصف زرداری کو گھسیٹ کر سیاست میں لائی تھیں حالانکہ آصف سے نکاح کے وقت بے نظیر بھٹو نے اُس کے سیاست میں حصہ لینے کی کوئی شرط نہیں رکھی تھی“ اُس وقت جناب حاکم علی زرداری کو اندازہ نہیں تھا کہ اُن کے بیٹے کو سیاست میں گھسیٹا جانا پورے قبیلے کے لئے باعثِ برکت ہو گا اور اُن کے پوتے بلاول زرداری کو بھی ”بھٹو“ کا خطاب دے کر جناب بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی کا چیئرمین بنا دیا جائے گا۔
”جمہوریت ہماری سیاست ہے“ کے راہنما اصول کے تحت جناب بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنی مرضی سے ہر سطح پر پارٹی کے عہدوں پر نامزدگیاں کرنے کا اختیار تھا اور اب یہ اختیار بلاول زرداری بھٹو اور جناب آصف زرداری کے پاس ہے۔ بیگم نصرت بھٹو کی چوتھی برسی کے موقع پر (23 اکتوبر 2015ئ) کو جناب آصف زرداری نے قوم کے نام پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ”بیگم نصرت بھٹو ایک قومی اثاثہ ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں قدآور مقام رکھتی ہیں اور جمہوریت کے لئے اُن کی لازوال جدوجہد جمہوریت پسندوں کے لئے مینارہ¿ نور ہے“۔ مجھے یقین ہے کہ اِس بار بلاول بھٹو زرداری بھی اپنی مرحومہ نانی صاحبہ کی جمہوریت کے لئے خدمات کا تذکرہ کرتے اپنی پارٹی کے ”جمہوریت پسندوں“ کو کوئی پیغام ضرور دیں گے۔
جمہوریت کے لئے جناب آصف زرداری کی بھی خدمات ہیں۔ دو خدمات تو مجھے بھی یاد ہیں۔ ایک تو یہ کہ جمہوریت کی بقاءکے لئے “پمز” اسلام آباد میں زیرعلاج حاکم علی زرداری کے آخری لمحات میں صدر زرداری سکیورٹی حکام کے مشورے پر اُن کی زیارت کے لئے نہیں گئے تھے اور دوسری یہ کہ موصوف نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں جناب زرداری کو ”برادرِ جمہوریت“ کا خطاب دے دوں، اگر میرے اپنے بھائی مجھ سے اس پر ناراض ہو جائیں تو میں انہیں ملک غلام مصطفےٰ کھر کی طرح یہ نہیں کہوں گا کہ ”میرے بھائی برادران یوسفؑ کی طرح ہیں“۔ یوں بھی حضرت یوسفؑ نے تو سارے برادران کو معاف کر دیا تھا۔