یقیناًسترہ اکتوبر کو سر سید احمد خان کی دو صد سالہ سالگرہ کی تقریبات و تذکرے سے پاکستان کا قریہ قریہ سج چکا ہوتا، ایوانِ صدر یا اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں مسلم لیگ کے دو قومی نظریے کے روحانی باپ کے اعزاز میں مرکزی تقریب ضرور ہوتی اور ہر ٹی وی چینل خدماتِ سر سید پر خصوصی پروگرام بھی پیش کرتا۔
اخبارات دس دس صفحات کے یادگاری ضمیمے بھی شایع کرنے سے نہ ہچکچاتے اگر سترہ اکتوبر کو مریم نواز اپنے چچا شہباز شریف کے گھر جا کر چائے نہ پیتیں، سپریم کورٹ میں عمران خان کے اثاثوں کی سماعت نہ ہو رہی ہوتی، افغان سرحدی صوبے پکتیا میں پاکستانی سرحد سے کچھ فاصلے پر ڈرون حملے نہ ہوتے، فوج اور سویلین ایک صفحے پر ہیں کہ نہیں پر بحث لازمی نہ ہوتی اور اگر لاکھوں چسکہ نواز پاکستانی مڈل کلاسئے ٹویٹر پر ’’می ٹو ہیش ٹیگ‘‘ فالو نہ کر رہے ہوتے۔
سر سید مصلح، دردمند ہندوستانی مسلمان رہنما اور اپنی ذات کو قوم کے تعلیمی و سیاسی مستقبل پر لٹا دینے والے اور اٹھارہ سو ستاون کی آندھی میں تنکوں کی طرح بکھر جانے والی مسلمان اشرافیہ کو پھر سے جوڑ کر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور انھیں جدید دنیا کی جانب بالوں سے پکڑ کر کھینچنے والے تھے کہ نہیں یہ تو میں نہیں جانتا، البتہ ان کی خوش قسمتی پر ضرور رشک آتا ہے کہ دو سو برس پہلے پیدا ہوئے اور ایک سو بیس برس پہلے انتقال فرما گئے۔ اسی لیے آج کی نسل کم ازکم دورِ کم سنی میں ہی سہی ان کی تھوڑی بہت عزت کرتی ہے۔
ذرا سوچیے2017میں سر سید احمد خان جیسا آدمی کیسے زندہ رہ پاتا اگر اس پر ان میں سے کسی ایک الزام کا چھینٹا بھی پڑ جاتا کہ جو ڈیڑھ سو برس قبل کے تمام جید علماِ کرام بلا امتیاز فرقہ و جماعت درجنوں کے حساب سے لگا رہے تھے۔ ایک جانب یہاں سے وہاں تک سید گلی گلی جدید تعلیم کے لیے پیسے کی بھیک مانگ رہا تھا اور اس کے پیچھے انجمنِ انسدادِ کفرِ سرسید لٹھ گھماتے ہوئے چل رہی تھی۔
یعنی سید احمد خان نامی شخص انگریزوں کے جوتے چاٹنے والا، ملحد، کافر، نیچری، تعلیماتِ اسلام کا منکر کہ جو مسلمانوں کو جدید مغربی و سائنسی تعلیم کی طرف راغب کر کے انھیں انگریزوں کا ذہنی غلام، بے غیرت اور دینی حمیت سے بے بہرہ کرنے کی فری میسنری سازش کا سرخیل ہے۔ لہذا ایسے بے دین مغربی تہذیب کے تنخواہ دار ایجنٹ کے کسی بھی تعلیمی منصوبے کے لیے چندہ دینا یا اس کے سیاسی نظریات کو قبول کرنا دراصل کفر و الحاد کے فروغ کی سازش میں حصہ ڈالنے اور عذابِ جہنم مول لینے کے برابر ہے۔
اگر سید احمد خان نامی یہ شخص ’’جو ہوں اور جیسا ہوں‘‘ کی بنیاد پر اپنی بات پر اڑے رہنے کے بجائے موسلا دھار فتووں کے آگے ہتھیار ڈال دیتا اور باقی زندگی اپنے کردار و اخلاص کی صفائی پیش کرتے کرتے حالتِ گوشہ نشینی میں معذرت خواہانہ مر جاتا تو سوچئے کیا ہوتا۔ میں جمال الدین افغانی اور اکبر الہ آبادی کی بات نہیں کرتا۔ کیا کوئی صاحب کوئی کتاب کھولے بغیر محض اپنی یادداشت کے بل پر ڈیڑھ سو برس پہلے کے ایسے پانچ جید علماِ کرام کے نام بتا سکتے ہیں جنہوں نے سر سید کو مسلمانوں کے نام پر دھبہ اور ان کی مدد کرنے والے کو نارِ جہنم کی نوید سنائی تھی؟
مگر سرسید نے لاعلمی و جہالت کی سنگلاخ زمین میں آگے دیکھنے سے قاصر عمائدین کے ہوتے 1875 میں برصغیر کے پہلے جدید مسلم اعلی تعلیمی ادارے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی۔ یہی کالج 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوا (پہلی چانسلر نواب سلطان جہاں بیگم والئی بھوپال)۔
اس ادارے نے پچھلے ایک سو بیالیس برس میں کیسے کیسے دوزخی پیدا کیے۔ یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے۔ میں یہ نام بلا ترتیب و تعارف پیش کر رہا ہوں۔ جسے تجسس ہو وہ ان کے بارے میں خود جانے۔
علامہ شبلی نعمانی، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، مولوی عبدالحق، خان عبدالغفار خان، نوابزادہ لیاقت علی خان، نواب حمید اللہ خان، مہندرا پرتاپ، دلیپ تاہل، شیخ محمد عبداللہ، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر ضیا الدین احمد، اے بی حلیم، اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، مولانا ظفر علی خان، خواجہ ناظم الدین، ملک غلام محمد، محمد ایوب خان، سردار بہادرخان، خان حبیب اللہ خان، فضل الٰہی چوہدری، میر غوث بخش بزنجو، محسنہ قدوائی، منصور علی، ایم اے جی عثمانی، میاں غلام جیلانی، سید سبطِ حسن، رشید احمد صدیقی، سلمہ صدیقی، عصمت چغتائی، اسرار الحق مجاز، علی سردار جعفری، راہی معصوم رضا، شکیل بدایونی، بشیر بدر، آغا اشرف علی، پروفیسر ایشوری پرشاد، مشتاق احمد یوسفی، شان الحق حقی ، خواجہ احمد عباس، مختار مسعود، ابوللیث صدیقی، عرفان جبیب، حبیب تنویر، جانثار اختر، نصیر الدین شاہ، سعید جعفری، راجہ مظفر علی، مفتی محمد سعید، غلام نبی فائی، حامد انصاری، راجہ راؤ، انو بھو سنہا، آندرے ویل، پروفیسر مشیر الحسن، اسماعیل گل جی، اختر حسین، صلاح الدین اویسی، علی احمد فضیل، احمد علی، روئیداد خان، لالہ امر ناتھ، اولمپین ظفر اقبال۔۔ یہ تو بس ایک جھلک ہے۔۔۔
محمد علی جناح پہلی بار 1940 میں علی گڑھ گئے اور پھر ہر سال جاتے ہی رہے۔ بقول جون ایلیا ’’پاکستان علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت ہے‘‘۔ 1945میں ان لونڈوں نے کتابیں رکھیں طاق پر اور نکل کھڑے ہوئے پنجاب تا بنگال پاکستان کی کنویسنگ پر۔ نتیجہ دسمبر چھیالیس کے جداگانہ انتخابات میں سامنے آ گیا۔
اس دوران جمیعت علماِ ہند، خاکسار تحریک اور جماعتِ اسلامی کے زعما وہی کرتے رہے جو اسی برس پہلے سر سید کے ساتھ ہو چکا تھا۔ اور پھر سینتالیس کے بعد یوں ہوا کہ یہ سب ’’کفرستان‘‘ جانے والی پہلی بس میں قطار پھلانگتے ہوئے سوار ہو گئے اور روحِ علی گڑھ وقت کے فٹ پاتھ پر ہکا بکا رہ گئی۔
آج سر سید پرائمری اسکول کے نصاب کی چند سطروں میں رہتا ہے اور اسکول ان کے قبضے میں ہیں جن کا بس چلتا تو سید کو کھڑے کھڑے سنگسار کر دیتے۔
پاکستان آج معیاری تعلیم کے عالمی چارٹ پر ایک ایسے نقطے جیسا ہے جسے دیکھنے کے لیے دیدہ پھاڑنا پڑتا ہے۔ اس نقطے کا حجم کیسے بڑھے؟ قریب کی نگاہ ناک سے آگے دیکھ نہیں سکتی، دور کی نگاہ کام نہیں کرتی، ناک علاوہ شک کچھ سونگھ نہیں سکتی، زبان کھل نہیں سکتی، سوال گملے سے باہر اگ نہیں سکتا۔حالات کم و بیش 1875 والے ہی ہیں۔ بس سید احمد خان غائب ہے اور وہ بھی اجتماعی یادداشت سے…