کوئی شخص ایک بڑے پتھر کو ہتھوڑے سے توڑنے کی کوشش کر رہا تھا اور لگائی جانے والی ہر ضرب کی گنتی بھی کئے جا رہا تھا؛ حتیٰ کہ اس نے پتھر پر ایک سو ضربیں لگائیں ‘لیکن پتھر نہ ٹوٹا۔ جیسے ہی اس پتھر پر 101 ویں ضرب لگائی تو وہ ٹوٹ کر بکھر گیا‘ جس پر وہ شخص خوشی سے کہہ اٹھا کہ آخری ضرب سے یہ پتھر ٹو ٹا ہے۔ اس سے کچھ دور کھڑے بزرگ‘ جو اسے غور سے دیکھ رہے تھے کہنے لگے: نہیں جوان اس ایک ضرب نے اس پتھر کو نہیں توڑا‘ بلکہ ایک سو ایک ضربوں کی وجہ سے یہ پتھر توڑاگیا ہے‘‘۔ یہی ہماری پاک فوج کہتی ہے کہ صرف وہی وطن عزیز کی حفاظت نہیں کر رہی بلکہ ہم بائیس کروڑ مل کر اپنے دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔ فوج اور عوام ایک ساتھ مل کر دشمن کو منہ کے بل گراتے ہیں۔ پاک فوج کی مجاہد رجمنٹ کے سابق کیپٹن محمد عامر حبیب نے جب دیکھا کہ دشمن اپنی طاقت کے نشے میں بد مست ہاتھی کی طرح اس کے وطن کی سالمیت کو روندنا چاہتا ہے تو انہوں نے منصف کا سیاہ گائون اتار کر پاک فوج کی دی ہوئی خاکی وردی کو اپنے جسم پر سجانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔انہیں سمجھایا گیا کہ دشمن کا مقابلہ صرف فوجی جوان اور افسر ہی نہیں‘ پاک بحریہ کے سیلر اور کمانڈر ہی نہیں‘ فضائی فوج کے کارپل اور ونگ کمانڈر ہی نہیں ‘بلکہ پاکستان کے کونے کونے میں بیٹھا ہر شخص کر رہا ہے۔
ضلع جھنگ کی تحصیل احمد پور سیال میں تعینات ایڈیشنل سیشن جج محمد عامر حبیب نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام اپنے خط میں ان سے گزارش کی کہ ان کا تعلق 833 میڈیم رجمنٹ سے رہا ہے‘ جہاں وہ بطور کیپٹن اپنی خدمات انجام دیتے رہے ۔ اسلحے اور فوجی اکثریت کے تکبر سے بھرے ہوئے ازلی دشمن کی پاکستان کو دی جانے والی جنگ کی دھمکیوں کو دیکھتے ہوئے اپنی خدمات فوری طور پر وطن کی افواج کے حوالے کر نا چاہتے ہیں‘ تاکہ اپنے جانبازوں کے شانہ بشانہ اپنے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو جائوں۔ ایڈیشنل سیشن جج کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے والے عامر حبیب آرمی چیف کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا ہے ایک ہی خواہش چلی آ رہی ہے کہ اپنے دین اور وطن کی حفاظت کرتے ہوئے مکار دشمن کے خلاف جہاد کروں۔ جنرل باجوہ کے نام اپنے خط میں محمد عامر حبیب لکھتے ہیں کہ ایک ہی خواہش ہے کہ اپنے وطن کی حفاطت کرتے ہوئے اپنی جان شہا دت کی سعادت کے ساتھ قربان کر دوں کیونکہ اگر یہ وطن ہے اس کی آزاد فضائیں ہیں تو ہماری عدالتیں‘ ہمارے گھر‘ ہماری تجارت اور ہماری نسلیں دنیائے عالم میں فخر سے سر اٹھائے کر چل سکیں گی۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام اپنے خط میں مجاہد رجمنٹ کے کیپٹن عامر حبیب انتہائی انکساری سے درخواست کرتے ہیں ” مجھے مجاہد رجمنٹ میں گزارا ہوا اپنا عرصہ ملازمت مجبور کر رہا ہے کہ اس نازک وقت میں جب دشمن ہمیں للکار رہا ہے‘ ہماری سرحدوں اور پیارے وطن کی عظمت پر اپنے ناپاک ہاتھ ڈالنے کی دھمکیاں دے رہا ‘تو مجھ پر لازم ہے کہ فوری طور پر اپنی یونٹ میں واپس چلا جائوں تاکہ جنگ کے بادلوں کے سائے گہرے ہونے سے پہلے اپنے جوانوں کو وہ تربیت فراہم کر سکوں جن کی انہیں اس وقت ضرورت ہو گی۔ اس لئے مجھے فوری طور پر اپنی یونٹ میں پہنچنے کی اجازت دی جائے‘ جو اس وقت آزاد کشمیر کے کسی مقام پر موجود ہے۔ اس خط کی ایک کاپی عامر حبیب نے آزاد کشمیر میں 833 میڈیم رجمنٹ کے اپنے کمانڈنگ آفیسر کے نام بھی بھیجی‘ تا کہ دشمن کی نخوت کے بت کو توڑنے کے لیے پوری قوم مل کر جو ضربیں لگائے ان میں ایک ضرب ان کی بھی ہو ! ” اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا ۔۔۔۔ تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں‘‘۔ہمارے معاشرے میں ایڈیشنل سیشن جج کا عہدہ کس قدر قابل احترام ہوتا ہے اورآج کے سرمائے سے محبت کرنے والی سوسائٹی میںخاندانی نظام میں اس قسم کے عہدے پر براجمان کسی شخص کی کس درجے کی قدر ومنزلت ہے اس کا مشاہدہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں‘ لیکن قربان جایئے عامر حبیب کے کہ سیشن جج جیسے عہدے پر فائض شخص جیسے ہی دشمن کی للکار سنتا ہے‘ جیسے ہی وہ جنگی وردی پہنے اپنی رجمنٹ کے ساتھیوں کو نعرے لگاتے‘ تیز تیز چلتے ہوئے تصور کی آنکھ سے دیکھتا ہے تو ان کے قدموں کی دھمک سے اس کا خون جوش مارنے لگتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کی ملکی سرحدوں کے قرب و جوار میں اس کے جوان مورچے کھود رہے ہیں وہ دیکھتا ہے کہ اس کی یونٹ کی توپوں کی صفائی کی جا رہی ہے‘ ان کو سرحدوں سے کچھ فاصلے پر کیمو فلاج کیا جا رہا ہے تو وہ ان کے ساتھ ملنے کو بے چین ہوجاتا ہے۔ اسے اپنانرم گرم بستر کانٹوں کی سیج محسوس ہونے لگتا ہے‘ وہ سمجھتا ہے کہ اسے آرام دہ گرم بستر کی نہیںبلکہ ا ن سرد مورچوں کی ضرورت ہے‘ جہاں مشین گنیں اس کا انتظار کر رہی ہیں۔ اس ملک‘ اس دھرتی نے اسے یہ عزت اور وقار بخشا ہے‘ یہ آرام و سکون دے رکھا ہے‘ آج جب وطن کو اس کے خون کی ضرورت ہے‘اس کے دست و بازو کی مہارت اور طاقت کی ضرورت ہے‘ کیونکہ دشمن اس کی سرحدوں پر اپنے خونخوار اور مکار چہرے کے ساتھ گھات لگائے کسی بھی لمحے جھپٹنے کے لیے تیار بیٹھا ہے ‘تو ایسے میں اسے نرم گرم بستر نہیں‘ فرنشڈ گھرکے باورچی خانے سے اٹھنے والی اشتہا انگیز خوشبوئوں سے بھرے ہوئے کھانوں کی ضروت نہیں‘ بلکہ اسے اپنے پاک وطن کی سرحدوں پر زمین کی گہرائیوں میں کھودے گئے سرد مورچوں میں ہونا چاہئے ‘جہاں اس کے وطن کے جوان اور افسر اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لئے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھے ہیں ۔محمد عامر حبیب جیسے لوگوں کے ہیرو بالی وڈ فلموں کے اداکار نہیں ہوتے بلکہ ان کے ہیرو ایم ایم عالم‘ سیسل چوہدری اور سکواڈرن لیڈر حسن جیسے سپوت ہوتے ہیں ۔ان کے ہیرو کیپٹن بلال ‘ کیپٹن علی ‘ میجر اسحاق‘ کرنل عامر‘ کرنل ہارون اسلام اور میجر جنرل ثنا اﷲ خان نیازی جیسے شیر دل شہید ہوتے ہیں ۔ عامر حبیب کو یقین ہے کہ اس کے وطن کے ہر کونے میں جگہ جگہ جو ہریالی نظر آتی ہے‘ اطراف میں قسم قسم کے پھول جو اپنی بے پناہ رنگینیوں سمیت بھینی بھینی خوشبو بکھیر رہے ہیں‘ ارد گرد جو گھنے سایہ دار درخت اپنی بہار دکھا رہے ہیں‘ ان سب کی جڑوں کو سینچنے والے پانی میں ان جیسے ہزاروںشہیدوں کا خون شامل ہے ۔احمد پور سیال کے ایڈیشنل سیشن جج محمد عامر حبیب کہتے ہیں کہ اس پاک وطن کی فضائیں لالک جان شہید‘ کیپٹن کرنل شیر خان شہید ‘محمدمحفوظ شہید اور سوار محمد حسین شہید جیسے لاتعداد پھولوں کی قبروں کی مٹی سے اٹھنے والی خوشبوئوں سے ہی معطر رہتی ہیں۔ عامر حبیب بھی وطن کی مٹی میں اپنا خون شامل کر تے ہوئے‘ پھولوں جیسی خوشبو بکھیرنے کا عزم لئے ہوئے ہیں۔
احمد پور سیال کے ایڈیشنل سیشن جج محمد عامر حبیب کہتے ہیں کہ اس پاک وطن کی فضائیں لالک جان شہید‘ کیپٹن کرنل شیر خان شہید ‘محمد محفوظ شہید اور سوار محمد حسین شہید جیسے لاتعداد پھولوں کی قبروں کی مٹی سے اٹھنے والی خوشبوئوں سے ہی معطر رہتی ہیں۔ عامر حبیب بھی وطن کی مٹی میں اپنا خون شامل کر تے ہوئے‘ پھولوں جیسی خوشبو بکھیرنے کا عزم لئے ہوئے ہیں! ”اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا ۔۔۔۔ تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں‘‘۔