28 دسمبر کو میں اپنے بیٹے کے ساتھ لاہور سے آئی ہوئی بہن، بھانجی اور پوتے کے ساتھ قائداعظمؒ کے مزار گئی۔ اول تو بڑے گیٹ بند تھے۔ جس طرف سے گاڑیاں اندر جاکر پارک ہوتی تھیں، وہاں ایک گیٹ تھوڑا سا کھلا تھا۔ گاڑی سڑک کنارے پارک کرنا تھی اور گیٹ پر 20 روپے چارج کیے گئے تھے۔
چھوٹے بڑے سیاست دانوں کو تمام تر بے ایمانیوں کے باوجود لاکھوں روپے کی سہولیات دی گئی ہیں مگر قائداعظمؒ، جن کی وجہ سے یہ ملک ملا، ان کی قبر پر فاتحہ کےلیے بھی ٹکٹ کی ضرورت ہے۔ اندر ہر طرف سوکھی گھاس، کوڑا، مٹی، پتے اس قدر تھے کہ کوئی انتہا نہیں۔ سیڑھیوں پر اتنی مٹی کہ دیکھتے رہیے اور روتے رہیے۔
جب اس ہال میں داخل ہوئے جہاں قائد کی قبر ہے، وہاں کا منظر ہی اور تھا۔ ایک طرف سے عورتوں کا داخلہ اور دوسری طرف سے مردوں کا؛ رسی لگائی ہوئی تھی، آپ اس میں گزریئے۔ ایک پتلے آدمی جتنا راستہ بنایا ہوا تھا، گزرتے گزرتے دوسرے دروازے سے باہر۔ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ ہم قبر تک جاتے، فاتحہ پڑھتے، تصویریں کھنچواتے، دل ہی دل میں شکریہ ادا کرتے بلکہ بعض اوقات کوئی مولانا بھی فاتحہ خوانی کےلیے موجود ہوتے۔
مگر اُس دن تو ایسا لگا کہ انتظامیہ کو قائدؒ سے خوف ہے: جلدی کرو! باہر نکلو! قبر پر ایک اداسی چھائی ہوئی تھی، ایسا انتظام کیا جارہا ہے کہ آہستہ آہستہ لوگ یہاں آنا ہی بند کردیں۔
پہلے ہم وہاں سے واپسی پر ہمیشہ ہمیشی خوشی خوشی آتے تھے، اس بار رونا آیا۔ ہمیں معاف کردیجیے گا قائداعظمؒ، ہم آپ کی قدر نہ کر سکے۔ جو باپ کی قدر نہیں کرتا، دنیا اس کی قدر نہیں کرتی، خدا ہم پر رحم کرے۔
میری افواجِ پاکستان سے گزارش ہے (کیونکہ یہاں گارڈ کا فریضہ فوجی جوان ہی انجام دیتے ہیں) کہ اس کا مکمل انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ بصورتِ دیگر مجھے خدشہ ہے کہ شاید عام لوگ مزارِ قائدؒ پر آنا ہی چھوڑ دیں گے اور اس کی صرف ایک نمائشی حیثیت ہی باقی رہ جائے گی جہاں صرف سربراہانِ مملکت اور اعلی سرکاری حکام و سیاستدان ہی جایا کریں گے۔