کراچی ….پاکستانی فلمساز اور ہدایت کارہ شرمین عبید چنائے نے اپنی مختصر دستاویزی فلم ‘دی گرل اِن دا ریور؛پرائس فار فوگیونیس کیلئے دوسری بار آسکر ایوارڈ حاصل کرکے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔
شرمین 12نومبر 1978کو کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ انہوں نے اسمتھ کالج سے اکنامکس میں بیچلراور اسٹین فورڈ یونیورسٹی ، امریکہ سے انٹرنیشنل پالیسی اسٹیڈیز ا اینڈکمیونی کیشنزمیں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔شرمین اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھیں جنہوں نے پڑھائی کی غرض سے بیرونِ ملک کا انتخاب کیا ۔اس سبب انہیں والدین کو اپنے حق میں کرنے کے لئے کافی محنت کرنا پڑی۔انہوں نے صحافت اور سیاسیات سمیت دیگر علوم بھی حاصل کئے لیکنحیرت انگیز طورپر شرمین نے فلمسازی کی کہیں سے بھی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کیمپس کے دورے کےوقت لوگوں کی حالت زار دیکھ کر انہیں پہلی مرتبہ فلم سازی کا خیال آیا۔شرمین کے مطابق انہوں نے سوچا کہ فلم سازی اور خصوصاً دستاویزی فلموں کے ذریعے ہی وہ لوگوں تک اپنی بات زیادہ موثر انداز میں پہنچا سکتی ہیں۔اس خیال کے ساتھ ہی وہ واپس امریکہ گئیں اور اپنی کالج انتظامیہ سے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔ کالج نے ان کی سوچ اور خیالات کا خیر مقدم کیا۔ وہ 2002ء میں پاکستان آکر فلم سازی میں مصروف ہو گئیں۔ پہلی دستاویزی فلم کے لئے انہیں اسمتھ کالج اور نیویارک ٹائمز ٹیلی ویژن پروڈکشن نے ہی فنڈز فراہم کئے تھے، صرف یہی نہیں بلکہ فلم سازی کے لئے آلات اور تربیت بھی انہی دو اداروں نے فراہم کی ۔ان کی فلمیں سی این این ، سی بی سی ، چینل فور ، پی بس ایس فرنٹ لائن ورلڈ ، الجزیزہ اور ایج بی او جیسے بڑی ٹی وی چینلز سے دکھائی جاچکی ہیں۔انہیں سن 2010ء میں فلم ‘چلڈرن آف دی طالبان ‘کے لئے ایمی ایوارڈ دیا گیا ۔وہ پاکستان میں سٹیزنز آرکائیو آف پاکستان نامی ادارے کی بانی ہیں جو ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے۔وہ فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی صحافی بھی ہیں ۔ وہ اب تک20سے زائددستاویزی فلمیں بناچکی ہیں۔ ان کی زیادہ تر فلمیں امریکا اور برطانیہ کے بڑے نیٹ ورکس پر نمائش کے لئے پیش کی گئیں۔انفلموں میں چلڈرن آف دی طالبان ، تین بہادر، دی لاسٹ جنریشن، پاکستانز ڈبل گیم ، ٹیررز چلڈرن ، وومن آف دی ہولی کنگ ڈم اور افغانستان ان ویلڈ شامل ہیں۔وومن آف دی ہولی کنگ ڈم سعودی عرب میں رہنے والی خواتین کے متعلق ہے ۔ اس فلم کی شوٹنگ کے لئے سعودی حکومت نے پہلی مرتبہ انہیں اپنی سرزمین پر فلم سازی کی اجازت دی تھی۔انہیں پہلی بارآسکر2012میںفلم ‘سیونگ فیس کے لئے دیا گیا تھا جس کی کہانی جنوبی پنجاب میں رہنے والی دو ایسی خواتین کے گِرد گھوم رہی ہے جن پر تیزاب پھینکا گیاتھا۔آسکر ایوارڈجیتنے والی ‘اے گرل ان دی ریورنامی دستاویزی فلم کا موضوع غیرت کے نام پر قتل ہونیوالی خواتین کے گِرد گھوم رہا ہے ۔شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ زکے علاوہ بھی متعددقابل ذکر ایوارڈز مل چکے ہیں جن میں انٹرنیشنل ایمی ایوارڈ ، لیونگسٹن ایوارڈ فار ینگ جرنلسٹ ، ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن ایوارڈ ون ورلڈمیڈیا جرنلسٹ آف دی ائیر ایوارڈ ، ایلکوڈ ڈیو پوائنٹ ایوارڈ اور سنے گولڈن ایگل ایوارڈ سمیت کئی دیگر ایواڑز بھی شامل ہیں۔شرمین اپنی کامیابی کا سہرا اپنے گھر والوں اورخاص کر والد اور شوہر کی مکمل حمایت اور حوصلہ افزائی کو دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہے مگر ان کے والد کہتے ہیں کہ ان کی پانچ بیٹیاں نہیں، چھ بیٹے ہیں۔
شرمین کی ایک اٹھارہ ماہ کی بیٹی بھی ہے جس کا نام امیلیا ہے ۔ امیلیا کی دیکھ بھال یا پرورش کے حوالے سے شرمین بتاتی ہیں کہ چونکہ وہ جوائنٹ فملی سسٹم میں رہتی ہیں لہذا ان کی ساس ، ان کے شوہر کی دادی اور باقی تما م افرادان کے ساتھ ساتھ امیلیا کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں ۔شرمین بہترین مصنفہ بھی ہیں جن کی لکھی پہلی کہانی چودہ سال کی عمر میں شائع ہوتی تھی۔ شرمین کا کہنا ہے کہ میری کہانیوں کا موضوع وہی ہوتا ہے جو اکثر لوگ چھوڑ دیتے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کاکام معاشرے میں تبدیلی کا سبب بنے گا ۔اس کے علاوہ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ گیارہ سال سے فلم میکنگ میں ہیں ، اب جاکر انہیں یہ مقام ملا ہے ورنہ ان کے پہلے کام کو 80چینلز مسترد کرچکے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر کام کو مسترد کرنا حوصلے پست کردینے کے لئے کافی ہوتا ہے مگر انہوں نے اس پر بھی ہمت نہیں ہاری اور اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج کامیابی ان کے قدم چوم رہی ہے۔