تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے ” تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے لوگوں نے کہا، اﷲ اس کا رسول ۖ زیادہ جانتے ہیں، فرمایا اپنے بھائی کی بابت ایسی بات کہنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ کسی نے کہا ،کیا ارشاد ہے کہ میرے بھائی میں وہ بات موجود ہے جو میں کہہ رہا ہوں، فرمایا اگر اس میں وہ بات موجود ہے جوتم کہہ ر ہے ہو تووہ اس کی غیبت اور اگر اس میں وہ بات موجود ہی نہیں ہے جوتم کہہ رہے ہو توتم نے اس پر بہتان لگایا۔(مشکوة شریف) اسلام جس معاشرہ کا طریقہ انسان کو سکھانا چاہتا ہے۔
اس کی بنیاد آپس کی ہمدردی اور خیرخواہی پر ہے ۔اگر معاشرہ کو انسان کے لئے مفید بنانا ہے تو اس کا طریقہ فقط یہی ہوسکتا ہے کہ انسان دوسروں کے کام آئے ، اور ہردوسرے انسان کی بھلائی کی کوشش کے لئے ہر وقت متحرک رہے۔ زبان سے کسی کو برا بھلا کہنا اگر اس کے منہ پر ہے تو یہ اس سے لڑائی کا یا اس کے دل دکھانے کا سامان ہے اور اگر اس کے پیٹھ پیچھے ہے تو یہ اس کی غیبت ہے ، اس پر جھوٹا الزام لگانا ہے، درج بالا حدیث میں دونوں باتوں کو برا کہا گیا ہے غیبت تو یہ ہے دوسرے کے عیب گنوائے جائیں اور اس کی ان باتوں کو ظاہر کیا جائے جنہیں وہ ظاہر کرنا نہیں چاہتا، اس سے معاشرے کی غرض پوری نہیں ہوتی بلکہ اسے الٹا نقصان پہنچتا ہے اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ معاشرے کی غرض پوری نہ ہونے دینا شیطانی کام ہے۔
معاشرہ تو اس لئے تھا کہ اس سے باہمی رنجشیں دور ہوں اور ایک دوسرے کو تکلیف اور کوفت سے بچایا جائے اگر اس سے جھگڑے اور ایک دوسرے کی دل آزاری کا سامنا پیدا ہونے لگے تو اس سے فطرت کا مقصد حاصل نہ ہوا، فطرت سے ہٹنا یا اس کا مقصد پورا نہ ہونے دینا شیطانی کام نہیں تو اور کیا ہے؟حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے اگر کسی کے سامنے اس کے کسی مسلمان بھائی کو پیٹھ پیچھے برا کہا جائے اور اس کے بس میں اس کی حمایت کرنی ہو اور وہ اس کی حمایت کرے تو اﷲ اس کی مدد کرے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی لیکن اگر اس نے قدرت ہوتے ہوئے ان کی حمایت نہ کی تو اﷲ اسے اس کی سزا میں اس دنیامیں بھی اور آخرت میں بھی پکڑے گا۔ (مشکوٰة شریف)اس حدیث میں ارشاد ہے کہ اگر تمہارے کسی مسلمان بھائی کی برائی اس کی پیٹھ پیچھے ہورہی ہو اور تم میں اتنی قدرت ہے کہ تم اس کی حمایت کرسکتے ہو تو تم پر لازم ہے کہ اس کی حمایت کرو، مثلاً کم سے کم یہی کرو کہ برائی کرنے والے کو غیبت کرنے کی برائی سمجھا دو اور کہو کہ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں، ایک دوسرے بھائی کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھانا کس قدر شرمناک بات ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنے بھائی کے ساتھ تمہاری یہ ہمدردی دیکھ کر اﷲ تمہاری مدد کرے گا اور اگر تم خاموش بیٹھے رہے اور اس کی برائیاں سنتے رہے اور برائی کرنے والوں کو روکنے کی طاقت رکھتے ہوئے اس سے نہ روکا تو اس کا نتیجہ دنیا اور آخرت دونوں میں برا ہوگا، دنیا میں آپس کا اعتبار اور بھرم رفتہ رفتہ مفقود ہوجائے گا باہمی ناچاقی پھیلے گی، نفاق اکا بازار گرم ہوجائے گا اور ایک دوسرے کی حقارت دل میں بیٹھ جائے گی اور لوگ ایک دوسرے سے نفرتکرنے لگیں گے اور آخرت میں اﷲ کی نافرمانی کی سزا ملے گی، کیونکہ تم باوجود سمجھا دینے کی صلاحیت کے ٹیڑھی راہ پر چلے اور تم نے اپنے اخلاق درست نہ کئے۔حضرت معاذ بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے جس نے ایک ایماندار آدمی کو منافق کے ہاتھ سے بچایا اس کے لئے اﷲ ایک فرشتہ مقرر کردے گا جو قیامت کے دن اس کے بدن کو دوزخ کی آنچ سے بچائے گا اور جس نے مسلمان کے سر کوئی بات لگائی اس ارادے سے کہ اس کو روا کرے، اﷲ اسے جہنم کے پل پر روکے رکھے گا، جب تک وہ اپنے قول سے بری نہ ہوجائے۔ ”
جو شخص دوسرے کی برائی اس کی پیٹھ پیچھے کرتا پھرے وہ منافق ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ منافق ظاہر میں دوست بنا رہتا ہے لیکن باطن میں وہ دشمن ہوتا ہے ، دوستی کے پردے میں دوسرے کے عیب تاکتا رہتا ہے اور پیٹھ پیچھے سچے جھوٹے عیب لوگوں کے سامنے ظاہر کردیتا ہے ، حدیث میں ہے کہ جو شخص ایک بھولے بھالے مسلمان کو ایسے دوغلے آدمی سے بچائے گا اس کے بدن کو دوزخ کی آگ جلانے نہ پائے گی ایک فرشتہ اسے دوزخ سے بچاتا رہے گا، مسلمان کو اس گھر کے بھیدی منافق سے بچانے کی صورت یہ ہے کہ یا تو اس کا اس کے پاس آنا جانا بند کردے اور یا جب وہ برائی کرے تو اس کو جھوٹا ثابت کرکے ایک بھلے مانس کی آبرو بچائے۔
اس کے بعد اس بدنام کرنے والے کی سزا سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ کسی مسلمان کو جان بوجھ کر رسوا کرنے والا جہنم کے پل کے اوپر روک کر کھڑا کردیا جائے گا اور وہاں جہنم کی تپش سے اس کا بدن جھلستا رہے گا اور اسے تب چھوڑا جائے گا جب وہ اس گناہ سے پاک ہوجائے گا یا تو اس ستائے ہوئے شخص کی رضا مندی حاصل کرکے ، یا عذاب کا دکھ درد اٹھا کر۔ اس سے پہلے اسے نجات حاصل نہ ہوگی جو لوگ بے دھڑک بھلے مانسوں کی برائیاں ادھر ادھر کرتے پھرتے ہیں انہیں ہوش میں آنا چاہئے اور جو نیک بندہ دنیا میں ان کی اس قبیح عادت سے لوگوں کو بچائے گا وہ عذاب سے محفوظ رہے گا۔حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے جب مجھے میرا رب معراج میں لے گیا تو میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا کہ ان کے ناخن پیتل کے تھے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو ان سے نوچ رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے (یعنی غیبت اور پیٹھ پیچھے بدگوئی کرتے تھے) اور ان کی آبرو کے پیچھے پڑے رہتے تھے۔ (مشکوة شریف) آج کل جہاں دو چار لوگ اکٹھے ہوتے ہی اور بات چیت کا سلسلہ چھیڑتے ہیں تو کام کی باتیں بہت کم ہوتی ہیں زیادہ تر دوسرے لوگوں کی بابت چہ میگوئیاں ہوتی ہیں۔
اس میں زیادہ تر ان کی برائیاں کی جاتی ہیں ۔ پیٹھ پیچھے برائی کرنے والوں کو قرآن مجید میں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے والا بتایا گیا ہے اسی بناء پر حدیث میں بھی ایسے افرادکو لوگوں کا گوشت کھانے والا کہا گیا ہے ان کی یہ حالت ہوگی کہ انہیں پیتل کے ناخن دیئے جائیں گے اور وہ ان سے اپنے چہرے اور سینے کو نوچ رہے ہوں گے اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ دوسروں کی پیٹھ پیچھے ان کی برائی کرنے والے اپنے آپ کا نقصان کرتے ہیں، برائی کرنے والے ایسے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔حضرت ابو سعید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے غیبت زنا سے بڑھ کر ہے لوگوں نے کہا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم غیبت زنا سے بڑھ کر کیسے ہے؟ فرمایا آدمی سے زنا سرزد ہوجائے اور وہ توبہ کرے تو اﷲ اسے بخش دیتا ہے لیکن غیبت کرنے والا بخشا نہیں جاتا جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔
آدمی زبان چلانے میں طاق ہے زبان بھی اس قینچی کی طرح چلتی ہے جو ذرا سی دیر میں سب دھجیاں ادھیڑ کر رکھ دیتی ہے آج اگر کسی سے کہا جائے کہ بھئی کم بولا کرو تو وہ جواب دیتا ہے جب اﷲ نے زبان بولنے کے لئے دی ہے تو پھر تمہاری طرح ہم سے تو گم سم ہوکر بیٹھا نہیں جاتا۔ اور پھر دنیایہی ہے ناکہ تھوڑی دیر ہنس بول لو، اگر پتھر بنے بیٹھے رہے تو ملاقات کا کیا فائدہ۔ ہم نے مانا کہ زبان بولنے ہی کے لئے ملی ہے لیکن اسے نہ بھولنا چاہئے کہ جیسے انسان کے ہر کاموں کی بازپرس ہوگی ایسے ہی زبان کے کلمات کی بھی بازپرس ہوگی۔ انسان کے منہ سے نکلے ہوئے ایک ایک فقرہ کی جوابدہی کرنا ہوگی، آج کل کیا شاید ہر زمانے میں یہی رواج چل نکلا ہے کہ جہاں دو شخص ملے وہیں کسی تیسرے شخص کی برائی شروع کر دی۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے غیبت کے وبال سے چھٹکارا پانے کی صورت یہ ہے کہ جس کی تو نے غیبت کی ہے اس کے لئے مغفرت کی دعا کر اور یوں کہہ کہ اے اﷲ ہمیں بخش اور اسے بھی بخش دے۔ ایک دوسرے موقعہ پر سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیبت اس وقت تک معاف نہیں ہوتی جب تک وہ شخص جس کی غیبت کی گئی ہے اسے معاف نہ کردے لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ اس شخص سے ملنے کی کوئی صورت ہی نہ ہو، کہ انسان اس سے معاف کراسکے، یا اس کا انتقال ہوچکا ہو ایسی صورت میں غیبت کی معافی کی شکل صرف ایک ہے، جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ اس کے لئے استغفار کرے یعنی یوں دعا کرے کہ یا اﷲ ہماری مغفرت کر اور اس کی بھی مغفرت کر اس طرح امید ہے کہ اس غیبت کا گناہ جو اس نے کی ہے معاف ہوجائے۔
دور حاضر میں جہاں مردوں میں غیبت کی بیماری پائی جاتی ہے وہاں عورتیںبھی پیچھے نہیں، عورتوں کا معمول ہے کہ ہر ایک کے خلاف بات کرنا ۔قرآن و حدیث میں دوسروں کے حقوق کا بڑا خیال رکھا گیا ہے، دوسرے کو ستانا کسی قسم کی تکلیف پہنچانا یا ایسی بات کرنا جس سے اسے رنج ہو بہت ہی بری بات ہے، اگر کسی سے نادانی کے باعث کوئی ایسا گناہ ہوجائے کہ اس کا اثر اس تک محدود ہے تو وہ اپنے رب حقیقی اللہ تعالیٰ کے سامنے رو کر اس سے اپنا گناہ معاف کراسکتا ہے ، لیکن اگر اس کی حرکت سے کسی دوسرے کو کوئی رنج پہنچا ہے یا اس کے احساسات کو ٹھیس پہنچی ہے یا شہرت کو دھبہ لگا ہے تو اب معاملہ زیادہ سنگین ہے، ایسے جرم کی معافی کے لئے اسے اس شخص سے بھی معاف کرانا پڑے گا جس کو اس سے رنج پہنچا ہے اور اگر اس سے معافی حاصل کرنے کی صورت نہیں رہی تو اس کے لئے دعائے مغفرت کرے اور اﷲ تعالیٰ سے امید مغفرت رکھے کہ وہ غفور الرحیم ہے۔ اور اللہ تعالی سے عفو و درگزر اورمعافی کی صورت پیدا کرنے کی التجاء کرنا چاہیے۔ اسلام ہمیں جو اخلاق سکھاتا ہے اس کی بنیاد زیادہ تر اس پر ہے کہ کسی کو کسی سے رنج اور دکھ نہ پہنچے کوئی کسی کا ذرا سا بھی نقصان نہ کرے بلکہ جہاں تک ہوسکے دوسروں کو فائدہ اور آرام پہنچانے کے لیے معاون بنے، بات کرتے وقت ہمیشہ احتیاط کرنا چاہیے تاکہ ہماری دنیا بھی خراب نہ ہو اور آخرت بھی خراب نہ ہو۔اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں غیبت سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل:ra03009230033@gmail.com
رابطہ نمبر:0300-9230033