تحریر: ثمینہ راجا
ریاست جموں و کشمیر جو 16 مارچ 1846 کو تشکیل پائی تھی 26 اکتوبر 1947 کو 101 سال 7 ماہ اور 10 دن کی عمر پا کر تقسیم ھو کر بیرونی ممالک کے غاصبانہ قبضے میں چلی گئی۔ مملکتِ جموں و کشمیر کی اس کم عمری کے باعث عوام ایک قوم کے سانچے میں نہ ڈھل پائے اور قومی شعائر، تاریخی شخصیات، تاریخی واقعات اور ماضی کے سفر سے لیکر مستقبل کی حکمت عملی تک، چہار سو ریاستی باشندوں میں اختلاف و انفاق نمایاں ھے -1846 سے لے کر 1947 تک انتظامی، سیاسی، جغرافیائی، معاشرتی اور سماجی اعتبار سے مملکتِ جموں و کشمیر پھیلی پھولی – مگر پھر نہ صرف یە کہ ریاست کا قومی، سیاسی، معاشرتی اور انتظامی شیرازہ بکھر گیا، بلکہ جغرافیائی اعتبار سے بھی ریاست چار حصوں میں بٹ کر اپنی وحدت اور شناخت کھو بیٹھی۔
قومیں کوئی دو چار سال میں نہیں بن جاتیں اور نہ ھی ایک آدھ صدی میں انکے ترکیبی عناصر انفرادی شناخت کو اجتماعی پہچان کے روپ میں پروان چڑھا پاتے ھیں -یہ صدیوں کا سفر ھوتا ھے جو قوموں کو تعمیر کرتا ھے اور انکے تمام عناصر ترکیبی کو یکتا سماجی، معاشرتی، لسانی اور تہذیبی رنگ میں رنگتا ھے جموں و کشمیر ایک ایسا بدنصیب ملک ھے جو قومی شناخت پروان چڑھنے سے پہلے ھی کچھ اپنوں اور بعض اغیار کی ریشہ دوانیوں کا شکار ھو کر تعمیر و تشکیل کی منزل سے گر کر تخریب و تنزلی کی پاتال میں جا پہنچا – اور یە سانحہ اسقدر روح فرسا اور جان لیوا تھا کہ تمام سماجی اشتراک اور سارے کا سارا معاشرتی اتحاد جل کر خاکستر ھو گیا۔
اس المیے نے سماجی یک رنگی اور معاشرتی اعتماد و انحصار کے وجود پر اتنے گہرے گھاؤ لگائے کہ انکا درد، نشان اور ٹیسیں ھزاروں نہیں تو سینکڑوں سالوں تک ضرور تازہ رھیں گے ۔ اگر ھم نے اس پارہ پارہ ریاست کو دوبارہ متحد کرنا ھے، ایک قوم بننا ھے اور اپنی سیاسی اور سماجی شناخت کا منقطع سفر پھر سے شروع کرنا ھے تو ھمیں باھمی علاقائی جھگڑوں اور قبائلی اختلافات کو دفن کر کے ایک کم از کم مشترک ایجنڈے پر متفق ھونا پڑے گا – اگر ھم ایسا نہیں کرتے تو ھم دوبارہ کبھی ایک قوم نہیں بن سکیں گے ۔ لازم ھے کہ جن شخصیات نے ھماری تشکیل و تعمیر کی ھم انکو سراھیں اور جن لوگوں نے ھماری تخریب و تنزلی میں کردار ادا کیا ان کا تعین کریں اور آئیندہ فکری آزاد خیالی سے بچتے ھوئے ریاست کی بحالی اور قومی سلامتی کے اھداف کو حاصل کرنے کے لئیے متحد اور مشترک جدوجہد کریں۔
یاد رکھئیے – قومی تعمیر اور تشکیل صدیوں میں مکمل ھوتی ھے مگر اس کا انتشار اور انحطاط محض چند دنوں کے جھٹکے کی بات ھوتی ھے۔ مملکتِ جموں و کشمیر کو تو 1846 میں تشکیل دے دیا گیا تھا، مگر ھماری سماجی یگانگت، سیاسی تشخص اور معاشرتی وجود ابھی پختہ نہیں ھوئے تھے اور قومی شناخت زیر تعمیر تھی – ایسے میں 1947 کے بھونچال نے نہ صرف ھمیں جغرافیائی اعتبار سے ٹکڑوں میں بانٹ دیا بلکہ ھماری سماجی ترتیب، معاشرتی آمیزش اور قومی وجود کو بھی تقسیم کر دیا – اس حادثے کا منطقی اور لازمی انجام یە ھوا کہ مملکتِ جموں و کشمیر کی تشکیل و تعمیر کا حقیقی تاریخی پس منظر بھی دھندلا گیا ۔ ایسے میں ریاست کے قومی وجود کو ھمیشہ ھمیشہ کیلئیے موت کی نیند سلانے کے درپے اغیار اور انکے زرخرید اور پالتو ریاستی غداروں کی باھمی سازشوں کے باعث برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ھی مملکتِ جموں و کشمیر کی اصل تاریخ کو مسخ کرنے کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔
گزشتہ 68 سالوں میں حقیقی ریاستی تاریخ کو من پسند جعلی اور جھوٹی تاریخ کے ساتھ بدلنے کے مکروہ اور مذموم دھندے کی تکمیل کے لئیے روپیہ پانی کی طرح بھایا گیا جس کا منطقی انجام یە ھوا کہ ریاست جموں و کشمیر کی نوجوان نسل اپنے وطن کی تاریخ، اپنے اسلاف کی شناخت، اپنے محسنوں کے کردار، غداروں کی بد اعمالیوں اور اپنے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کا فہم و ادراک کھو بیٹھی ۔ اکتوبر 1947 ھماری قومی تاریخ، سیاسی شناخت اور سماجی وجود کے سفر میں اھم ترین واقعات کا مظہر ھے – اس مہینے کے دوران ھمارے قومی وجود پر جو زخم لگے ان کا حساب ضروری ھے – تا کہ ھم یە تعین کر سکیں کہ ھماری سماجی، معاشرتی اور سیاسی تعمیر کا گھروندا اتنا کچا کیوں ثابت ھوا اور ھمارے قومی وجود کو کن لوگوں نے ، کیوں اور کیسے کاٹ کر ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔
اس ماہ کے دوران 1947 میں رونما ھونے اصل واقعات کو ایک منظم سازش کے ذریعے دھندلا کر جھوٹے اور من گھڑت واقعات کے ساتھ بدل دیا گیا ھے تا کہ مملکتِ جموں و کشمیر کے عوام دوبارہ سے اس ملک کی بحالی کی منظم، مشترک اور مربوط جدوجہد شروع نہ کر سکیں ۔ میرے اس آرٹیکل کا مقصد ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں کو اکتوبر 1947 کے دوران رونما ھونے والے حقیقی واقعات کے پس منظر اور اصل ترتیب و ھئیت سے آگاہ کرنا ھے – اس ضمن میں سینکڑوں کتب لکھی جا چکی ھیں جو مخالف فریقین کے دعوؤں کو سچا ثابت کرنے کے لئیے بیش بہا مواد سے بھری پڑی ھیں – میں ان کتب کے پوسٹ مارٹم کے بجائے سادہ، عام فہم، عقلی اور استدلالی انداز میں اکتوبر 1947 کے اصل واقعات کو پیش کروں گی – قارئین کرام کی آراء اور رھنمائی میرے لئیے ھمیشہ کی طرح عزت افزائی کا ذریعہ ھو گی۔
تحریر: ثمینہ راجا