اکتوبرکا مہینہ پت جڑ کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس مہینہ میں درختوں کے پتے گرنے لگتے ہیں۔ پھول اور سبزہ غائب ہو جاتے ہیں۔ خزاں کے موسم میں ایک خاص قسم کی یاسیت کا ماحول ہوتا ہے۔ اس سال اکتوبرگزشتہ سالوں کے مقابلے میں قدرے گرم ہے۔ خاص طور پر دن کے وقت دھوپ کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اکتوبرکا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں اس اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان میں دو مارشل لاء اسی مہینے میں لگے۔ آٹھ اکتوبر 1958ء کو پاکستان میں اس وقت کے صدر میجر جنرل سکندر مرزا پاکستان نے سویلین حکومت کا خاتمہ کرکے ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقررکر دیا۔ فوج نے جب اقتدار سنبھالا تو اس نے 27 اکتوبر1958ء کو صدر میجر جنرل سکندر مرزا کی چھٹی کرا دی اور جنرل ایوب خان نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہ مارشل لاء چار سال تک جاری رہا۔ 1962ء میں جنرل ایوب خان نے پاکستان کا صدر بننے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پاکستان کو ایک نیا آئین دیا۔ جس کے ذریعے ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام نافذکر دیا گیا۔ مغربی پاکستان کے چار صوبوں کو ون یونٹ قرار دیا گیا۔ اس آئین کے ذریعے بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا گیا۔ اسی نظام کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان میں 80 ہزار بیسک ڈیموکریٹس منتخب کئے گئے اور انہیں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے علاوہ صدر مملکت کے انتخاب کیلئے بھی الیکٹرورل کالج قرار دیا گیا۔
بنیادی جمہوریت کے اس نظام پر جب پاکستان اور پاکستان سے باہر سے تنقید ہوئی تو جنرل ایوب خان نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے لوگ اس قابل نہیں کہ انہیں مغربی طرزکی جمہوریت دی جائے۔ یہ الگ بات ہے جب 1968ء میں ایوب خان حکومت کے خلاف مشرقی اور مغربی پاکستان میں تحریک چلی تو انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ لاہور میں مذاکرات کئے اور ان مذاکرات میں انہوں نے پاکستان بھی پارلیمانی جمہوریت کے قیام اور ون مین ون ووٹ یعنی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرانے پر رضا مندی ظاہر کر دی تھی۔ اس وقت فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے مارچ 1969ء میں مارشل لاء لگا دیا۔ بات اکتوبر کے مہینہ کی ہو رہی تھی۔
1999ء کے اکتوبر میں پاکستان میں ایک اور مارشل لاء لگا دیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی منتخب حکومت کو ختم کرکے فوج نے اقتدار سنبھالا جنرل پرویز مشرف نے ٹیک اوور کے بعد اپنے آپ کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکہلانے کی بجائے چیف ایگزیکٹو کہلانا پسند کیا۔کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ اکثر فوجی افسروں کو مارشل لاء پسند نہیں تھا‘ اس سے ان کیلئے بارہ اکتوبر کا مارشل لاء قابل قبول بنانے کیلئے چیف ایگزیکٹو کی اصطلاح استعمال کی گئی۔
2016ء کا اکتوبر اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے‘ حالات نارمل ہیں۔ ملک میں وفاق اور صوبوں میں منتخب حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ سیاسی جماعتیں اب 2018ء کے انتخابات پر فوکس کئے ہوئے ہیں اور انہیں انتخابات کی تیاری کرنی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے 30 اکتوبرکو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب 30 اکتوبرکی بجائے دو نومبر کو اسلام آبادکو لاک اپ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس لئے اکتوبر میں کوئی بڑا سیاسی بحران متوقع نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے لیے اکتوبر کا مہینہ بھاری ثابت ہو چکا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک بحران اس وقت پیدا ہوتا ہے جب فوج کا سربراہ ریٹائرڈ ہونے والا ہو۔
18 اکتوبر بروز منگل کو وزیراعظم محمد نوازشریف اس بار بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ حکمران جماعت کے باقی عہدیداروں کا بھی انتخاب ہو چکا ہے۔ یہ اکتوبر رواں دواں ہے۔ اس اکتوبر میں صرف ایک بھونچال ایک انگریزی روزنامہ میں میں سکیورٹی اجلاس سے متعلق شائع ہونے والی خبر سے پیدا ہوا ہے۔ حکمران جماعت کے ذمہ دار عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس خبر سے جو بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ محض چائے کی پیالی میں طوفان ہے۔کچھ حلقے اس رائے پر مصر ہیں کہ اب خبر کی اشاعت سے عسکری حلقوں میں سخت تشویش اور غصہ پایا جاتا ہے‘ پیر کے روز آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات کے حوالے سے بعض میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ فوج کے سربراہ نے وزیراعظم کو مذکورہ خبر کے بارے میں فوج کی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔ اس خبرکی اشاعت سے حکومت اور فوج کے تعلقات میں کتنا تناؤ پیدا ہوا ہے اس کی حقیقت حکومت کو معلوم ہوگی۔ یہ معاملہ کیسے نمٹایا جائے گا‘ یہ حکمران جماعت کا مسئلہ ہے‘ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ خزاں آلود اکتوبر خیریت سے گزر جائے گا۔، تحریر جاوید صدیق