تحریر : ممتازملک۔ پیرس
جانے کتنی بار واہگہ بارڈر کی پرچم اترائی کی تقریب دیکھ چکی ہوں لیکن ہر بار اس میں جا کر ایک نیا جوش اور ولولہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ تقریب کبھی بھی مجھے پرانی نہیں لگی ہر بار آنکھ کیا سوچ کر نم ہوتی ہے خدا جانے۔ بنا کسی عمر کی تخصیص کے ہر ایک کے لہو کو گرما جاتی ہے یہ تقریب۔ آج بھی ٹیلیویژن پر یہ تقریب دیکھتے ہوئے یہ ہی حال تھا۔ عجیب حالت ہوتی ہے دل کی جسے لفظوں میں بیان کرنے سے ہمیشہ ہی قاصر رہتی ہوں۔
شاید ان جاں بلب عاشقوں کے تصور سے کہ جنہوں نے اپنی ساسنسیں رب کعبہ سی ضد کر کےاس سرحد کو چومنے کے لیئے ملک الموت سے بھی ادھار مانگ لی تھیں۔ آخری سجدہ اس سرزمین کی مٹی کو چوم کر کرنے کے لیئے۔ یہ کیا اور کیسی دیوانگی ہو گی کہ دو سو کا قافلہ لیکر چلنے والے بھی دم آخر فقط دو یہاں پہنچے اور ایک نے دوسرے کی آنکھوں کے سامنے اس مٹی کو چوما سجدہ کیا اور جان جان آفرین کے سپرد کر دی ۔ خدایا وہ ارواح عاشقان وطن وہ ارواح مقدسہ جو اسی سرحد پر کھڑی رہ گئیں کہ کوئی ناپاک نظر اس کی جانب نہ اٹھا سکے۔ انہی کی عرش کو ہلاتی دعائیں اور صدائیں ہی تو ہیں جو ہر آفت کو اس سے ٹکرا کے واپس پلٹنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
ہم اپنے پڑوسی نہیں بدل سکتے لیکن اہم اپنے پڑوسیوں کو اپنے عمل سے یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ تمہارے ہر ستم نے ہمیں ایک قدم اور آگے کی جانب دھکیلا ہے یہ ہمیں پیچھے کبھی نہیں لڑھکا سکے۔ تو جب تمہاری دوشمنی ہمیں آگے ہی جانے پر مجبور کرتی ہے تو کیوں نہ ایک دوسرے کو اپنی مرضی اور وقار کیساتھ جینے کی اجازت دیکر اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا جائے۔ جسے خود ہم پڑوسیوں کے بیچ فساد کا بیج بونے والے بھی تسلیم کرتے ہیں اور بارہا کرتے ہیں کہ اگر اس خطے کے ان دو ممالک میں دوستی یا امن ہو گیا تو ان جیسی ذہین قوم پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گی۔ پھر وقتی فوائد کے لالچ میں ہم اپنے ابدی فوائد کو کس طرح پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ یہ کام سیاستدانون نے تو کیاخوب ہی کیا ہے جس کا دل چاہتا ہے اپنے ذاتی فائدے کے لیئے کوئی بھی قانون بنوا لیتا ہے یا مٹوا دیتا ہے۔ ان دو ممالک کی سادگی کیساتھ یہ جذباتی مذاق ہوتا رہیگا۔ جب تک ان ممالک کی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے اور سچ اور انصاف کی باتوں پر ساتھ دینے کے لیئے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے۔
پچیس سال تک سری لنکا میں خانہ جنگی کروانے والے بھی ان کی ہمتوں اور ثابت قدمی کے سامنے ریت کا ڈھیر ہی ثابت ہوئے ۔ ہم بھی اپنی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے آج چودہ سال پورے کر رہے ہیں۔ ہم میں بہت سی کمیاں اور خامیاں بھی ہیں اور کمزوریاں بھی ہیں لیکن ہماری ایک خوبی ان سب باتوں پر حاوی ہو جاتی ہے وہ یہ کہ ہم گرتے ہیں ، روتے ہیں ، چلاتے ہیں لیکن پھر جلد ہی کپڑے جھاڑ کر نئے عزم سے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں ۔ نہیں یقین تو دیکھیئے ہمارے شہیدوں کے اہل خانہ کے چہروں کو ، دیکھئیے سانحہ پشاور کے گھر والوں کی صورتوں کو۔ جواب خود بخود مل جائے گا ۔ بس ضرورت ہے تو اپنی راہوں کی صحیح سمت متعین کرنے کی۔
پلٹنا چھپٹنا چھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
تحریر : ممتازملک۔ پیرس