تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
شکر الحمداللہ ! ہم انسان اور مسلمان ہیں ، لفظ ”قربانی”عربی زبان کے لفظ”قربان” سے ما?خوذ ہے جس کا لغوی معنی ہے ایسی چیز جس کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کیا جائے چنانچہ القاموس المحیط میں ہے۔القربان: معناہ ما یتقرب بہ الی اللہ۔ (القاموس المحیط ص١٨٣) اور المعجم الوسیط میں ہے۔معناہ ما یتوصل بہ الی اللہ (المعجم الوسیط ص٧٣٢) اور اصطلاح شرع میں اس ذبیحہ کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔ قربانی ہر اس مسلمان پرواجب ہے جوعاقل،بالغ، آزاداورمقیم ہونیز ضرورت اصلیہ کے علاوہ دیون سے فارغ نصاب کا مالک ہو۔قربانی جس طرح صاحب نصاب مردوں پر واجب ہے اسی طرح صاحب نصاب عورتوں پر بھی واجب ہے۔
وجوب قربانی کے لئے مال پر سال کا گزرنا یا تجارتی ہونا شرط نہیں ہے۔حتی کہ اگر کوئی شخص قربانی کے تین دنوں میں سے آخری دن بھی بقدر نصاب مال کا مالک ہو جائے اس پر بھی قربانی واجب ہے۔ازل سے ہی شیطان کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ دین اسلام سے لوگوں کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، آج کل ”کانگو وائرس ” کا جو چرچا ہے وہ بھی مسلمانوں اور مومنوں کو اللہ کے احکامات کی پیروی کرنے سے روکنے کا ایک نہانہ ہے کہ ” کانگو وائرس ” پہلے قربانی اور پھر کانگو وائرس پر بات کرتا ہوں !
قربانی کے متعلق اللہ تعالی کا وجوبی حکم قرآن پاک میں موجود ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”فصل لربک وانحر(سورةالکوثر)پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اورقربانی کیجئے۔
احادیث میں قربانی کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔حدیث میں ہے کہ قربانی کے دنوں میں اللہ تعالی کو سب سے پسندیدہ عمل جانور کی قربانی ہے۔قربانی کے جانور کے ہر ہر بال،سینگ اور کھر کے عوض بھی نیکیاں ملتی ہیں۔
عن عائشة رضی اللہ تعالی عنھا قالت،قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:ماعمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی اللہ من اھراق الدم و انہ لیاتی یوم القیمة بقرونھا و اشعارھا و اظلافھا و ان الدم لیقع من اللہ بمکان قبل ا?ن یقع بالا?رض فطیبوا بھا نفسا (رواہ الترمذی و ابن ماجہ)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ذو الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی عید الاضحی کے دن فرزند آدم کا کوئی عمل اللہ تعالی کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے یہاں قبول ہو جاتا ہے۔پس اس کو خوشدلی سے انجام دو۔
ایک حدیث میں ہے جس کے راوی حضرت زید بن ارقم ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے عرض کیا:یا رسول اللہ ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے؟آپ نے فرمایا یہ تمہارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔(یعنی سب سے پہلے ان کو اللہ تعالی کی طرف سے اس کا حکم دیا گیا اور وہ کیا کرتے تھے۔ان کی اس سنت اور قربانی کے اس عمل کی پیروی کا حکم مجھ کو اور میری امت کو بھی دیا گیا ہے)ان صحابہ نے عرض کیا پھر ہمارے لئے ان قربانیوں میں کیا اجر ہے؟آپ نے فرمایا قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی۔
انہوں نے عرض کیا تو کیا اون کابھی یہی حساب ہے؟(اس سوال کا مطلب تھا کہ بھیڑ،دنبہ
اور مینڈھا جیسے جانور جن کی کھال پر گائے،بیل یا بکری کی طرح کے بال نہیں ہوتے بلکہ اون ہوتا ہے۔توکیاان اون والے جانوروں کی قربانی کا ثواب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی کی شرح سے ملے گا؟)آپ نے فرمایا ہاں:اون یعنی اون والے جانوروں کی قربانی کا اجر بھی اسی شرح اور اسی حساب سے ملے گا۔کہ اس کے بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی۔(مسند احمد و سنن ابن ماجہ)حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیشہ قربانی کی،صحابہ کرام اور تمام مسلمانوں کا بھی معمول قربانی کرنے کا رہا ہے۔
ترمذی شریف کی ایک حدیث میں ہے۔ ان رجلا سا?ل ابن عمر عن الا?ضحیة ا?واجبة ھی؟ فقال ضحی رسول اللہ ۖوالمسلمون فا?عادھا علیہ،فقال:ا?تعقل؟ضحی رسول اللہ ۖوالمسلمون (ترمذی) ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے سوال کیا کہ کیا قربانی واجب ہے؟تو جواب میں حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا کہ حضور اقدس ۖ نے اور سارے مسلمانوں نے قربانی کی ہے۔اس شخص نے دوبارہ سوال کیا کہ یہ واجب ہے یا نہیں؟حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا کہ تجھے عقل ہے؟ حضور اقدس ۖ نے اور تمام مسلمانوں نے بھی قربانی کی ہے۔مطلب یہ ہے کہ جب حضور ۖ اور تمام مسلمانوں کا معمول قربانی کرنے کا ہے تو تم بھی قربانی کیا کرو۔حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپ نے قربانی کی۔عن ابن عمر قال:ا?قام رسول اللہ ۖبالمدینة عشر سنین یضحی (ترمذی)حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور ہر سال آپ نے قربانی کی۔
حضرت انس بن مالک جو سرکار دو عالم ۖ کے خادم خاص تھے وہ اپنا اور سرکار دوعالم ۖ کا معمول بقرعید کے دن کا بیان کرتے ہیں کہ قال:کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یضحی بکبشین و ا?ناا?ضحی بکبشین (بخاری)نبی کریم ۖ دومینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میںبھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں۔بخاری و مسلم شریف میںحضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہی و سفیدی مائل رنگ کے سینگوں والے دو مینڈھوں کی قربانی کی،اپنے دست مبارک سے ان کو ذبح کیا اور ذبح کے وقت ”بسم اللہ واللہ اکبر”پڑھا۔میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ اپنا پاو?ں ان کے پہلو پر رکھے ہوئے تھے۔اور زبان سے بسم اللہ و اللہ اکبر کہتے جاتے تھے۔(رواہ البخاری و مسلم)
خبر یہ ہے کہ محکمہ صحت پنجاب، سندھ بلوچستان ، کشمیر گلگت، خیبر پختون خان میں
عیدالاضحیٰ کی آمد سے پہلے پاکستان بھر میں کانگو وائرس کے پھیلنے کے پیش نظر حفاظتی اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے چند مقامات پر کانگو وائرس کے کیس سامنے آئے ہیں۔
ملک کے مختلف حصوں سے کانگو وائرس میں مبتلا افراد کی نشاندہی کے بعد طبی ماہرین نے عوام کو قربانی کے لئے جانوروں کی خریداری میں محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے کچھ مقامات میں کانگو وائرس کی موجودگی کے بعد ملک بھر میں اس وائرس کے خاتمے کے لئے ایک طرف تو جانوروں پر سپرے کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے اور دوسری طرف عوام کے آگاہی کے لیے ابلاغ عامہ کا سہارا بھی لیا جارہا ہے، کیوں کہ احتیاطی تدابیر سے اس وائرس سے پھیلنے والے کانگو بخار سے مکمل نجات اور ممنکنہ ہلاکتوں میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ کانگو بخار ایک وائرس سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ یہ وائرس مویشیوں کے جسموں پر چپکے رہنے والے کیڑے یا چیچڑی (جوں کی شکل سے ملتا ہوا، قدرے لمبا کیڑا، جسے ہائی لومہ بھی کہتے ہیں) میں پایا جاتا ہے۔ یہ وائرس ایک جانور سے دوسرے جانور اور جانوروں سے انسانوں تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔ یہ وائرس متاثرہ مویشی یا انسان کے خون یا رطوبت سے بھی پھیل سکتا ہے۔ ان کے مطابق، ”اگر یہ ہائی لومہ کسی انسان کو کاٹ لے تو وہ انسان فوری طور پر کانگو بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے، جوکہ ایک خطرناک بیماری ہے۔”
مویشیوں کی منڈیوں میں بیوپاریوں اور گاہکوں کو زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں کانگو وائرس آسانی کے ساتھ نقل و حرکت کر سکتا ہے۔ ویٹرنری شعبہ سے تعلق رکھنے والے، مویشی پالنے والے، خرید و فروخت میں شامل اور مذبح خانوں میں کام کرنے والے افراد کو ترجیحی بنیادوں پر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے، ”ننگے ہاتھ سے چیچڑی کو ہاتھ نہ لگایا جائے، بچوں کو جانوروں کی منڈی میں لے جانے سے گریزکیا جائے اور منڈی جاتے وقت ہلکے رنگ کے کپڑے پہنے جائیں تاکہ کپڑوں پر رینگتی چیچڑی نظر آسکے۔”کانگو بخار کی علامات مریض بخار، سر درد، منہ میں چھالے بننا، پیٹ میں دائیں طرف بالائی حصے میں تکلیف اور بھوک کے خاتمہ کی شکایت کرتا ہے۔ ڈینگی اور کانگو وائرس کی علامات تقریبا ایک جیسی ہیں لیکن مریض کی ہسٹری سے اس اصل بیماری کا پتہ چلایا جاسکتا ہے جبکہ احتیاط ہی اس بیماری کا واحد علاج ہے۔
گزشتہ دنوں کوئٹہ میں مزید ایک خاتون کی کانگو وائرس سے ہلاکت کی وجہ سے رواں سال کانگو وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ملک کے زیادہ تر علاقوں میں کانگو کے ٹیسٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مریضوں میں اس کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی۔
پاکستان کی 70 فیصد آبادی دہیاتوں میں رہائش پزیر ہیں جبکہ 70فیصد سے 80 فیصد دیہاتی ایسے ہیں جن کا پیشہ جانوروں ( مال مویشی ) کو پالنا ہے ، 10 فیصد ایسے بھی دیہاتی ہیں جو جانوروں کی پرورش تو نہیں کرتے مگر ذندگی کو دھکا دینے کے لئے ”مال مویشی ” گھر پر رکھتے ہیں ، تا کہ دودھ چائے کی ضرورت پوری ہو سکے ۔
پاکستان کی بیس 200000000 آبادی میں اگر 10 مریض ( سرکاری اعدادو شمار) کے مطابق ہوں تو یہ ”آٹے میں نمک ” بھی نہیں بنتا۔ پھر میڈیا پر اس کی تشہیر اور بریکنگ نیوز کی سمجھ عقل میں نہیں آتی، لگتا ہے کچھ قوتیں ایسی ہیں جو مکمل شیطان کے زیر اثر ہے۔ وہ شیطانی قوتیں ہمیں اللہ اور اللہ کے پیارے نبی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ اسلام اور حضرت اسمعیٰل علیہ اسلام کی سنت ادا کرنے سے دور کرنے کے لئے ” کانگو وائرس ” کا رونا دھونا وہ بھی عید قربان کے موقع پر کر رہے ہیں ، دعا ہے اللہ پاک سب مسلمانوں کو سنت ابراہیمی ادا کرنے کی توفیق دے اور جو لوگ سنت ابراہیمی کو ادا کر رہے ہیں ان کی قربانیوں کو قبول و منظور فرمائے ( آمین )
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا