تحریر : حافظ ابتسام الحسن
عید الاضحی کے دن جانور کی قربانی کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ،جناب ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور جناب محمد ۖ کا معمول ہے۔ اسلام کا یہ نظام قربانی ہر سال غریبوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے اور گوشت جیسی نعمت سے بھرپور لطف اندوز ہونے کا سبب ہے۔ قربانی کا حکم اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ۖ کو سورةالکوثر میں قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔”پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔” عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ دس سال مدینہ میں مقیم رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے(ترمذی)۔ عبداللہ بن عمر سے کسی نے سوال کیا کہ کیا قربانی واجب ہے ؟تو اُنھوں نے جواب دیا :”رسول اللہ ۖ اور مسلمانوں نے قربانی کی تھی ”سائل نے اپنا سوال دہرایا :عبداللہ بن عمر نے جواب دیا :”کیا تمھیں کچھ عقل ہے ؟ میں کہہ رہا ہوں کہ رسول اللہ ۖاور مسلمانوں نے قربانی کی تھی”۔ امام ترمذی یہ حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیںکہ ”اس حدیث کی بنا پر اہل علم کے نزدیک قربانی واجب نہیں ،بلکہ رسو ل اللہ ۖکی سنتوں میں سے ایک سنت ہے جس پر عمل کرنا مستحب ہے۔”
مذکورہ دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قربانی واجب نہیں ، تاہم صاحب استطاعت شخص کو اس کا لازمی اہتمام کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ نیکی ہے او ر نیکی کرنے کی کوئی حد نہیںجتنی بھی ہو جائے ہمیشہ کم ہی سمجھی جائے۔ دوسری جانب صاحب استطاعت شخص پر قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وعید بھی ہے۔ مستدر حاکم میں روایت ہے کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا :”جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔ اس طرح آپ ۖ نے میدان عرفات میں ارشاد فرمایا تھا : ”اے لوگو !بے شک ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ضروری ہے”(ابوداود)۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیںکہ استطاعت ہونے کے باوجود قربانی نہیں کرتے ، عموماً یہ عذرپیش کیا جاتا ہے کہ عید کے بعد بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنی ہے جس پر لاکھوں کا خرچ ہونا ہے۔ قربانی کرنے کی صورت میں ہم شادی نہیں کر سکیں گے۔ بعض لوگ معمولی قرض کی بنا پر قربانی نہیں کرتے۔ کچھ لوگوں کا تویہ بھی کہنا ہے کہ جو رقم ہم قربانی کی مد میں خرچ کرتے ہیں اگر اسے غریبوں کی بھلائی پر خرچ کریں تو معاشرے کو زیادہ فائدہ ہوگا اور غربت ختم ہوگی۔
ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ شادی کی بے ہودہ رسومات کو ترک کر کے قربانی کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے ، ہمارے یہاں جتنے کا دلہن کا لہنگا آتا ہے اتنے میں قربانی ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ جن پر معمولی قرض ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ ہمارے اندر قرض اتارنے کی اہلیت ہے تو انھیں اسے بہانہ نہیں بنانا چاہیے ، جب قرض ہونے کے باوجود باقی سارے اخرجات ویسے ہی چل سکتے ہیں تو پھر قربانی کیوں نہیں ہوسکتی۔ آخر میں وہ لوگ جو غریبوں کی مدد کے بہانے قربانی نہیں کرتے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ قربانی کا گوشت اور کھال غریبوں میں ہی تقسیم ہوتی ہے۔ یہ غریبوں کی اجتماعی سطح پر مدد ہے۔ اگر قربانی کا نظام نہیں ہو گا تو غریبوں کی مدد انفرادی اور قلیل ہو گی۔ دوسرے نمبر پر غریبوں کی مدد کے لیے اسلام کا نظام زکوٰةوصدقات اور خیرات موجود ہے ۔جو بنایا ہی غربت کے خاتمے کے لیے ہے ،اگر اسے اسلامی طریقے کے مطابق رائج کردیا جائے تو معاشرے سے غربت خود بخود ہو جائے گی۔ چنانچہ قربانی جیسے حکم اسلامی کو ویسے ہی رہنے دیا جائے جیسا کہ حکم ربی ہے۔ خیر و فلاح اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے میں ہی پنہاں ہے۔
قربانی کا جانور
قربانی کے لیے جس جانور کا انتخاب کیا جائے وہ گائے ،اونٹ ،بھیڑ ،بکری کی جنس سے ہی ہونا چاہیے۔ سورة الحج میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :”اور ہر اُمت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں (یعنی ذبح کریں ) جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں”۔ امام نووی شارح صحیح مسلم نے تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ قربانی میں صرف یہی جانور ہی کفایت کر سکتے ہیں۔ رسول اللہ ۖہر سال دو مینڈھے (نر بھیڑ ) ذبح کیا کرتے تھے۔ انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ”رسول اللہ ۖ دو مینڈھوں کے ساتھ قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی اسی طرح دو مینڈھے ہی قربان کرتا ہوں(بخاری)۔” ایک جانور تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کر جاتا ہے اس لیے گھر کے ہر فرد کی جانب سے الگ الگ جانور ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔
البتہ گائے اور اونٹ میں شراکت ہو سکتی ہے۔ گائے میں زیادہ سے زیادہ سات افراد جبکہ اونٹ میں دس افراد تک شریک ہو سکتے ہیں۔ ابو دائود کی ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ ”ہم ایک مرتبہ رسول اللہ ۖکے ساتھ سفر میں تھے کہ عید الاضحٰی آگئی چنانچہ ہم نے گائے میں سات افراد اور اونٹ میں دس افراد شریک ہو کر قربانی کی۔”قربانی کے جانور کا چند عیوب سے پاک ہونا ضروری ہے۔ مثلا لنگڑ ا پن ،بھینگا پن ،انتہائی لاغر و کمزور یا بیمار ہونا ،اسی طرح نہ اُس کا کان کٹا ہو اہواور نہ سینگ ٹوٹا ہونا چاہیے۔ تاہم جانور کا خصی ہونا کوئی عیب نہیں۔براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ ”رسول اللہ ۖنے چار قسم کے جانوروں کی قربانی کرنے سے منع کیا ہے۔
پہلا وہ جانور جو بھینگا ہو اور اس کا بھینگا پن بالکل واضح ہو۔ دوسرا وہ جانورجو مریض ہو اور اس کی بیماری بالکل عیاں ہو ۔ تیسرا وہ جانور جو لنگڑا ہو اور اس کا لنگڑا پن بالکل نمایاں ہو اور چوتھا وہ انتہائی لاغر و کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں بالکل گودا نہ ہو”(ابو داود)۔ مذکورہ عیوب سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ قربانی کے جانور کا صحت مند، موٹا تازہ اور دو دانتا ہونا بھی ضروری ہے۔ابو امامہ بن سہل بیان کرتے ہیں کہ ”ہم مدینہ میں قربانی کے جانور کو (خوب کھلا پلا کر )موٹا کرتے تھے اور اسی طرح عام مسلمان بھی قربانی کے جانوروں کو موٹا کرتے تھے۔”جانور کا دو دانتا ہو نا ضروری ہے اگر تنگدستی ہو یا نہ مل رہا ہو تو ایک سال کی بھیڑ یا دنبہ بھی ذ بح کرسکتے ہیں۔جابر بیان کرتے ہیں رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا : تم دو دانتا جانور ہی ذبح کرو ،ہاں اگر تم تنگدست ہو تو ایک سال کی بھیڑ (یا دنبہ ) ذبح کرلو”(صحیح مسلم)۔
ذبح کرنے اور گوشت کی تقسیم کا طریقہ کار
قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد ہے ،اگر عید سے پہلے کیا تو وہ قربانی نہیں ہو گی۔ جندب بن سفیان بیان کرتے ہیں کہ میں قربانی کے موقع پر رسول اللہ ۖکے ساتھ تھا۔ ابھی آپ نماز سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ نے ان جانوروں کا گوشت دیکھا جنھیں آپ ۖ کے نماز سے فارغ ہو نے سے قبل ہی قربان کر دیا گیا تھا۔ آپ ۖ نے فرمایا : ”جس شخص نے جانور عید سے پہلے ہی ذبح کردیا تھا وہ اس کی جگہ اور جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا وہ ”بسم اللہ ”پڑھ کر ذبح کرے”(بخاری )۔ قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے چھری اچھی طرح تیز کر لیں۔شداد بن اوس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :” جب کوئی جانور ذبح کرے تو اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کرلے اور ذبح کیے جانے والے جانور کو سکون پہنچائے”(مسلم)۔
جانور ذبح کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اسے بائیں کروٹ لٹائیں ،اپنا پاؤں اس کی گردن پر رکھیں اور ”بسم اللہ اللہ اکبر ”کہہ کر دائیں ہاتھ سے ذبح کریں۔ انس بیان کرتے ہیں کہ” رسول اللہ ۖ نے دو سفید ، سیاہی مائل مینڈھوں کو قربان کیا ،میں نے دیکھا کہ آپ نے ان کی گردنوں پر پاؤں رکھا اور ”بسم اللہ اللہ اکبر ”پڑھ کر انھیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا”(بخاری )۔ قربانی کے جانور کا گوشت خود بھی کھائیں ،اپنے رشتہ داروں اور گھر میں آنے جانے والوں کو اور اسی طرح فقراء و مساکین کو بھی کھلائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”پھر تم خود بھی اب (قربانیوں کے گوشت سے ) کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ”(الحج )۔ اس آیت مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے علمائے کرام قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک حصہ اپنے لیے ،دوسرا رشتہ داروں اور ملاقاتیوں کے لیے جبکہ تیسرا فقراء و مساکین کے لیے۔
قربانی کی کھالیں
جس طرح قربانی کا گوشت فروخت کرنا جائز نہیں اسی طرح قربانی کی کھالیں فروخت کرکے ان کی قیمت اپنے مصرف میں لانا بھی جائز نہیں۔ یا تو انھیں اپنے استعمال میں لایا جائے یا صدقہ کر دیا جائے۔ علی بیان کرتے ہیں کہ ”مجھے رسول اللہ ۖنے حکم دیا کہ میں آپ ۖ کی قربانیوں کے پاس رہ کر نگرانی کروں اور ان کے گوشت ، ان کی کھالیں اور ان کی جھولیں صدقہ کردوں اور ان میں سے کوئی چیز قصاب کو بطوت مزدوری نہ دوں”(بخاری)۔
تحریر : حافظ ابتسام الحسن