تحریر : محمد جواد خان
ہمارے معاشرے میں اُس شخص کی عزت و تکریم زیادہ کی جاتی ہے جس کے تعلقات افسرانِ بالا کے ساتھ زیادہ مستحکم ہوں چاہے وہ اس کی چاپلوسی کی بدولت ہوں یا کہ اس کی قابلیت کی بدولت۔ مگر اکثر ملازمین جن کو کام سے لگن اور کام کرنے کا سلیقہ نہ آتا ہو تو ان کو ہی دیکھا گیا ہے کہ وہ ہی اپنے افسران کی چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں۔حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ کی ایک حکایت ہے کہ : “لوگوں نے سیاہ گوش سے پوچھا کہ بھلے مانس تجھے شیر کے زیر سایہ رہنا کیوں پسند ہے، اس نے جواب دیاکہ شیر شکار کرتا ہے جس سے وہ اپنا پیٹ بھر لیتا ہے ، اور جو اس کے کھانے سے بچ جاتا ہے ، میں وہ کھا کر گزارہ کر لیتا ہوںاور شکار کرنے والے جانوروں کے شر سے بچ کر اس کے زیر اثر زندگی گزر رہی ہے ۔ لوگوں نے کہا: “تو اس کے سایہ تلے آیا ہو ا ہے۔
اس کی بچی ہوئی خوراک احسان لے کر کھاتا ہے، تو پھر اس کے قریب تر کیوں نہیں بیٹھتا تاکہ وہ تجھے اپنے خاص و مقربین میں داخل کرے اور تیر ا اس کے خاص خادموں میں شمار ہو جائے۔” اُس نے کہا:”دور اس لیے ہوں کہ اس کی گرفت سے بھی بے خوف نہیں ہوں۔”اول تو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ افسران ، امیر اور برے لوگوں کی محافل و قرابت سے جس قدر ممکن ہو اجتناب کرنا حد درجہ بہتر و افضل امر ہے۔ کیو نکہ صاحب اور امیر زادوں کے مزاج کے بدلنے میں وقت نہیں لگتا،بڑے افسران کے ساتھ چاہے آپ کے تعلقات کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں مگر ان سے ایک قدم کی دوری پر رہنا ہی انسان کے لیے افادیت کا سامان ہے کہاوت ہے نہ کہ “گدھے کے پیچھے سے اور افسران کے سامنے سے نہیں گزرنا چاہیے۔”
فوج میں تو قانون ہے کہ “کچھ نہ کچھ کرتے رہو” مطلب کے افسران کی نظر میں ہر وقت کام کرتے ہوئے نظر آئو یہ نہیں کہ آ پ افسران کے سامنے بھی فضول وبیکار بیٹھے رہنے سے افسران کے دل میں آپ کے خلاف ایک ایسی تصویر بن جاتی ہے جس کے اندر آپ ان کو ہر وقت کام چورکی صورت میں ہی نظر آ سکتے ہو۔ اور افسران کو جب کبھی بھی موقع ملے گا تو وہ آپ کے اس فضو ل اور کام چوری کے سبب آپ پر سب سے پہلا حملہ کریں گئے اور آپ کی مثال ہر جگہ پر دیں گئے کہ “کام کیا ہو تا ہے سارا د ن فضول بیٹھے رہتے ہیں سب “وغیر ہ وغیرہ۔مگر ساتھ میں آپ کو ایسے افسران بھی ملیں گئے کہ جو فرشتہ صفت انسان سے کم نہ ہو ں گے جن کے رویے اور انداز ِ گفتگو سے آپ اس قدر متاثر ہونگے کہ اگر وہ آپ کو آگ میں کودنے کا بھی حکم دے دیں گئے تو آپ یقینا دریغ نہیں کریں گئے اور ہر ممکن اپنے افسران کے حکم کو بجا لانے کی کوشش کریں گئے۔
مگر دوسری جانب سچ تو یہ ہی ہے کہ آگ کی اصل جلانا ہے ، اگر کوئی اس کوئی اس کی پوجا سو سال تک بھی کرلے تو وہ اسے جلا دیتی ہے، وہ خدمت گزرای کی پرواہ نہیں کرتی۔ بادشاہوںکی خدمت گزاری بھی ایسی ہی ہے ۔ جی میں آئے تو سلام کرنے پر ناراض ہو جائیں چاہے تو گالی دینے پر خلعت سے نواز دیں۔ بندے کو اپنا مقام و حیثیت سمجھ کر زندگی گزارنا چاہیے۔ اپنی زندگی کو اپنے طرز پر جینے کا نام ہی زندگی ہے، یہ نہیں کہ چاپلوسیوں کے زیر نگیں کر کے اپنی زندگی کی افادیت کو کھو بیٹھو اور اپنے مرتبے و مقام کا بھی نام و نشان نہ رہے۔
زندگی ایک انمول تحفہ اور ایسا تحفہ ہے کہ جس کو ہر قسم کی غلامی سے آزاد پیدا کیا گیا ہے، مگر ہم نے اپنی آزادی کو غلامی میں خود ڈھال کر اپنے لیے پریشانیاں پیدا کر رکھی ہیں۔ اپنے افسران کی چاپلوسی کی بدولت ان کی نظر میں عزت و تکریم حاصل کرنے کے بجائے اپنے کام میں من و لگن اس انداز میں لگائیں کہ آپ کے افسران آپ کی تعریف آپ کے کام کو مد نظر رکھ کر کریں۔
یقین مانیں کہ وہ تعریف کسی بھی قسم کے خطرے و نقصان سے بالا تر ہو گی جو کہ ہر ممکن اور ہر موقع پر آپ کو فائد ہ ہی پہنچائے گئی اور یہ ہی افسران ہر ممکن آپ کے ساتھ تعاون بھی کریں گئے اور ہر مقام پر آپ کو اچھے الفاظ کے ساتھ یاد بھی کریں گئے۔
تحریر : محمد جواد خان
mohammadjawadkhan77@gmail.com