counter easy hit

دنیا کے کئی ممالک اپنا پاسپورٹ کیوں فروخت کر رہے ہیں؟ بی بی سی کی ایک دلچسپ اور معلوماتی رپورٹ

وانوآٹو (ویب ڈیسک) آپ اس کے پیدائشی طور پر حامل ہو سکتے ہیں۔ آپ اسے اپنی محنت سے حاصل کر سکتے ہیں اور آپ اس سے محروم بھی ہو سکتے ہیں۔ اور اب تو آپ سرمایہ کاری کر کے بھی اسے اپنا بنا سکتے ہیں۔

اسے‘ سے یہاں ہماری مراد کسی مخصوص ملک کا پاسپورٹسارہ ٹرینور اور ویویئن نونِس بی بی سی کے لیے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ یعنی اس کی شہریت ہے، اور اب یہ تصور پہلے سے کہیں زیادہ عام ہوچکا ہے۔ 50 سال قبل کسی ملک کا دوہری شہریت کی اجازت دینا کم کم ہی ہوتا تھا لیکن اب یہ تصور تقریباً ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔اب دنیا کے تقریباً نصف سے زیادہ ممالک میں شہریت بذریعہ سرمایہ کاری کے پروگرام رائج ہیں۔ اس حوالے سے مہارت رکھنے والے سوئس وکیل کرسچن کیلن کے مطابق اب یہ 25 ارب ڈالر (20 ارب پاؤنڈ) سالانہ حجم کی بین الاقوامی صنعت بن چکی ہے۔مسٹر کیلن جنھیں ’مسٹر پاسپورٹ‘ بھی کہا جاتا ہے، ہینلے اینڈ پارٹنرز کے چیئرمین ہیں جو اس پھیلتی ہوئی مارکیٹ میں دنیا کے سب سے بڑے کھلاڑیوں میں سے ایک کمپنی ہے۔ ان کا دنیا بھر میں پھیلا ہوا یہ کاروبار دولتمند افراد اور ان کے خاندانوں کو دیگر ممالک میں شہریت کے حصول میں مدد دیتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شہریت کے روایتی تصورات اب ’قدیم‘ ہوچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا میں یہ کچھ باقی رہ جانے والی چیزوں میں سے ہے جو اب بھی خون کے رشتوں یا آپ کے پیدائش کے ملک سے جڑی ہوئی ہیں۔‘ ان کا خیال ہے کہ ہمیں اس پر از سرِ نو غور کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں ’یہ انتہائی غیر منصفانہ ہے‘ اور سمجھاتے ہیں کہ جہاں ہم پیدا ہوتے ہیں، اس کا ہمارے ہنر یا ہماری صلاحیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ ’صرف قسمت‘ ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’شہریت کو [کسی تنظیم کی] رکنیت کی طرح تصور کرنے میں کیا حرج ہے؟

اور ان باصلاحیت لوگوں کو اپنانے میں کیا غلط ہے جو اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں؟کئی لوگ ان کی اس دلیل کے حامی ہیں مگر کئی لوگوں کے نزدیک یہ تصور قابلِ قبول نہیں کہ پاسپورٹ کو ایک قابلِ خرید چیز تصور کیا جائے۔ شہریتوں کے اس کاروبار کے متعلق تحقیق کے دوران ہم بحر الکاہل کے ایک چھوٹے سے جزیرے وانوآٹو تک جا پہنچے۔ چونکہ اس ملک نے چار سال قبل ہی شہریت کی اپنی سکیم متعارف کروائی ہے اس لیے اس میں بے پناہ دلچسپی دکھائی جا رہی ہے۔ پاسپورٹ اب اس ملک کی حکومت کے لیے کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ وانوآٹو کا پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے سب سے بڑا فائدہ یورپ بھر میں ویزے کی پابندی سے آزاد ہوجانا ہے۔ وانوآٹو کی حکومت ڈیڑھ لاکھ ڈالر کے عوض آپ کو اپنے ملک کی شہریت دے سکتی ہے زیادہ تر غیر ملکی افراد اور اس ملک کا پاسپورٹ حاصل کرنے کے خواہشمند کبھی بھی یہاں قدم نہیں رکھتے۔ اس کے بجائے وہ بیرونِ ملک موجود دفاتر مثلاً ہانگ کانگ میں پی آر جی کنسلٹنٹ کے دفتر میں شہریت کے لیے درخواست دیتے ہیں۔ یہ کنسلٹنٹ وانوآٹو کی حکومت کی طرف سے شہریت کی درخواستیں وصول کرنے کے لیے لائسنس یافتہ ہے۔ ہانگ کانگ دنیا میں شہریت کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے۔ ہانگ کانگ ایئرپورٹ کے ایک کیفے میں ہم ایک ایجنٹ ایم جے سے ملے۔ وہ ایک پرائیوٹ بزنس مین ہیں جو چینی شہریوں کی دوسرا حتیٰ کہ تیسرا پاسپورٹ تک حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ اپنے کلائنٹس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’وہ [چین میں] خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔

وہ بینک اکاؤنٹ کھولنے، جائیداد خریدنے یا کاروبار شروع کرنے کے لیے یورپ تک رسائی چاہتے ہیں‘۔شہریت کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ سخت ہے اور کئی چھوٹے، ممالک جو جزیرے ہیں، بالخصوص کیریبیئن خطے کے ممالک میں پاسپورٹ کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالر تک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وانوآٹو کے پاسپورٹ کی قیمت بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔ ایم جے بتاتے ہیں کہ وانوآٹو کا پاسپورٹ ’بہت جلدی‘ مل جاتا ہے (صرف 30 دن میں پاسپورٹ آپ کے ہاتھ میں) اور اسی وجہ سے یہ لوگوں میں مقبول ہے۔ مگر کیلن اور دیگر خبردار کرتے ہیں کہ وانوآٹو بدعنوانی کی وجہ سے خراب ساکھ کا حامل ہے، چنانچہ ہینلے اینڈ پارٹنرز اور دیگر کمپنیاں وانوآٹو کی شہریت نہیں دلواتیں۔ مگر اس کے باوجود چین کے لوگوں کی اس میں دلچسپی برقرار ہے۔ چند سال پہلے تک ہانگ کانگ کے ٹی وی چینلز پر وانوآٹو کی شہریت کے بارے میں دلفریب اشتہار نظر آتے تھے جن کا ہدف یہاں چین کے مرکزی خطے سے لگاتار آنے والے سیاح ہوتے تھے۔ ایم جے کہتے ہیں کہ کئی دولت مند چینی وانوآٹو کا پاسپورٹ استعمال کر کے یورپ میں داخل ہوتے ہیں تو شہریت حاصل کرنے کے بعد کتنے چینی واقعتاً وانوآٹو جاتے ہیں؟ ایم جے کا اندازہ ہے کہ شاید 10 میں سے ایک۔ پورٹ وِلا وانوآٹو کا دارالحکومت بھی ہے اور تضادات سے بھرپور شہر بھی۔ یہاں سڑکیں اکثر زیرِ آب اور گڑھوں سے پُر رہتی ہیں۔ آپ کو کہیں بھی ٹریفک کی بتیاں نظر نہیں آئیں گی اور سڑکوں پر رش چمکیلی کاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔

یہ ٹیکس کی آسان شرائط رکھنے والے ممالک میں سے ہے اور حال ہی میں شفافیت اور کرپشن کے مسائل پر یورپی یونین نے اسے ’بلیک لسٹ‘ میں شامل کر لیا ہے۔ اس ملک کے اپنے لوگ جنھیں نی وانوآٹو کہا جاتا ہے، انھیں بھی 1980 میں سرکاری طور پر شہری اس وقت تسلیم کیا گیا جب ملک نے آزادی حاصل کی۔ اس سے قبل یہ نیو ہیبریڈیز کہلاتا تھا اور فرانس اور برطانیہ کی اس پر مشترکہ حکومت تھی۔ یہاں کے باشندے 80 سے زیادہ جزیروں کی ایک پٹی پر رہائش پزیر ہیں۔ 40 سال سے بھی کچھ کم عرصہ پہلے تک یہ لوگ خود شہریت کے بغیر تھے۔ اور سابق وزیرِ اعظم باراک سوپے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔پورٹ وِلا کی مرکزی سڑک پر ایک ہوٹل اور کسینو میں بیٹھے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میرے اپنے پاس 1980 تک پاسپورٹ نہیں تھا۔ مجھے برطانیہ اور فرانس کے جاری کردہ ایک کاغذ پر سفر کرنا پڑتا تھا۔ یہ بہت ہی ہتک آمیز تھا‘۔مسٹر سوپے کہتے ہیں کہ وانوآٹو کا اپنی شہریت فروخت کرنا ’دھوکہ دہی‘ ہے اور وہ اس خطے میں بے تحاشہ چینی سرمایہ کاری کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ وہ جھنجھلائے ہوئے انداز میں کہتے ہیں کہ ’چین کے پاس ہم سے کہیں زیادہ پیسہ ہے‘۔ سابق وزیرِ اعظم باراک سوپے کہتے ہیں کہ وانوآٹو کا اپنی شہریت فروخت کرنا ‘دھوکہ دہی’ ہے مسٹر سوپے اور ان جیسے دیگر لوگ چینی سرمایہ کاری پر تنقید کرتے ہیں اور ان کے مطابق چینی کمپنیاں سارا پیسہ اپنے پاس رکھ لیتی ہیں جبکہ ملازمتیں صرف چینیوں کو ہی دی جاتی ہیں۔

وانوآٹو دنیا کے ان تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں خواتین سیاست سے مکمل طور پر باہر ہیں، اور اس کی مکمل طور پر مردوں پر مشتمل حکومت اپنے شہریت کے پروگرام کے بارے میں ہم سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ مگر ہم حکومت کے مقرر کردہ شہریت سے متعلق ایک ایجنٹ بِل بنی سے ملنے میں کامیاب رہے اور انھوں نے اس پروگرام پر اپنے نکتہ نظر سے آگاہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں وانوآٹو کو ایک بین الاقوامی تناظر میں دیکھنا ہے۔ دیگر ممالک بھی کمانے کے لیے پاسپورٹ فروخت کرتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت زیادہ قدرتی وسائل نہیں ہیں۔ اس سکیم سے وانوآٹو میں کافی پیسہ آ رہا ہے‘۔ بِل بنی کہتے ہیں کہ پاسپورٹ فروخت کرنے کی سکیم وانوآٹو کے لیے کمائی کا ایک اہم ذریعہ ہے مگر یہاں کی آبادی اکثریتی طور پر دیہی ہے اور ان کے نزدیک 2015 میں متعارف ہونے والی یہ پالیسی نہایت متنازع ہے۔ مقامی آبادی کی ایک رہنما این پاکوا ہمیں ایک عمومی سے گاؤں لے کر جاتی ہیں جس میں گھروں کی چھتیں ٹین کی ہیں۔ دارالحکومت کی دکانوں اور ریستورانوں سے تھوڑا ہی دور ایک کچی سڑک کے ذریعے یہاں صرف 10 منٹ میں پہنچا جا سکتا ہے مگر یہ بالکل ایک الگ ہی دنیا محسوس ہوتی ہے۔ این کہتی ہیں کہ مقامی افراد پاسپورٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم دیکھ بھی نہیں پائے حالانکہ وعدے کیے گئے تھے کہ اس سکیم سے 2015 میں سمندری طوفان پام کے بعد تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر اورگھروں کی تعمیرِ نو کی جائے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے بڑوں نے ہماری آزادی کے لیے اپنی جانیں دیں۔ اب لوگ وہی پاسپورٹ لیے ہوئے ہیں جو ہمارے پاس ہے، صرف ڈیڑھ لاکھ ڈالر کے بدلے؟ یہ سارا پیسہ کہاں ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ اسے بند ہونا چاہیے‘۔ اسی گاؤں سے ایک اور خاتون سوزن ہمیں ایک گندا کنواں دکھاتی ہیں۔ ’میں چاہتی ہوں کہ حکومت ہمیں نلکا لگا دے تاکہ بچے نہا سکیں اور صاف پانی پی سکیں‘۔ این پاکوا کہتی ہیں کہ اس سکیم سے حاصل ہونے والی رقم سے مقامی افراد کی اکثریت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہےچینی مارکیٹ سے بڑھتی ہوئی طلب کے پیشِ نظر ایک مقامی اخبار کے مالک ڈین میک گیری کہتے ہیں کہ پالیسی میں مستقبل قریب میں تبدیلی کا تصور بھی مشکل ہے۔ڈین کے مطابق اب ملکی محصولات کا 30 فیصد پاسپورٹ کی فروخت سے حاصل ہوتا ہے۔ہمارے جیسے چھوٹے سے ملک کے لیے یہ بہت بڑی بات ہے۔ مگر ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا ہم نے لڑائی اس کے لیے لڑی تھی؟ کیا یہ درست ہے؟ کیا لڑ کر حاصل کی گئی خودمختاری کو سب سے زیادہ بولی لگانے والوں کے ہاتھ بیچنا ٹھیک ہوگا؟یہ ایسا سوال ہے جس پر گلوبلائزیشن کے اس دور میں صرف وانوآٹو نہیں بلکہ دیگر کئی ممالک کو بھی سوچنا ہوگا۔مگر جیسا کہ ہینلے اینڈ پارٹنرز کے مسٹر کیلن کہتے ہیں ’شہریت بذریعہ سرمایہ کاری اور سرمایہ کاری کے ذریعے ہجرت کے پروگرام ایسی دنیا کے عکاس ہیں جس میں ہر چیز پہلے سے زیادہ لچکدار ہے۔

Often, Countries, selling, their, passports, but, why, investigative, journalism

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website