وزیرِ اعظم خاقان عباسی نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کےحوالے سے نیب کی جانب سے مبینہ طور پر 9 عشاریہ 4 بلین ڈالر بھارت منی لانڈرنگ کرنے پر خاصی دھواں دھار تقریر کی اور عندیہ دیا کہ پارلیمنٹ چیئر مین نیب کو ذاتی طور پر بلائے اور ان سے جواب طلب کرے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم خاقان عباسی ملک میں پھیلی بے روز گاری، تعلیم کی زبوں حالی، صحت کے مسائل، اسپتالوں میں بستروں کے فقدان، پینے کے صاف پانی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس کی غیر منصفانہ تقسیم پر صوبوں کے درمیان مخاصمت، حصول انصاف میں رکاوٹیں، پولیس کلچر، لوٹ کھسوٹ اور دیگر سماجی برائیوں کے خاتمے پر بات کرتے۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکا۔ یہ تو وہ بہتر جانتے ہیں کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ البتہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاستدانوں نے بھی شخصیت پرستی کے سوا کچھ نہیں سیکھا۔ یہ کیو نکر اور کیسے مان لیا جائے کہ جو وزیرِ اعظم خود اس بات پر مصر ہو کہ اس کا وزیرِ اعظم اب بھی نواز شریف ہی ہے، اسے کیا سمجھا جائے۔
وزیرِ اعظم خاقان عباسی کو اپنی تقریر میں یہ باور کرانا چاہئیے تھا کہ وہ مملکت خدادا د پاکستان میں بسنے والے 22 کروڑ افراد کے وزیرِ اعظم ہیں۔۔ تاہم ان کی تقریر سے ایسا شائبہ ہوا کہ وہ جاتی امرا میں بسنے والے خاندان شریفیہ کے نہ صرف ذاتی ملازم ہیں بلکہ ان پر لگنے والے مبینہ الزام پر چراغ پا بھی ہیں۔ قومی اسمبلی کا پلیٹ فارم مجموعی اعتبار سے عوام الناس کو درپیش مسائل اور ان کے قابل قبول حل کے لئے باہمی مشاورت سے قانون سازی ہے کہ نہ کہ ایک ایسے فرد کے دفاع کے لئے جس پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے صادق اور امین نہ ہونے کی مہر لگی ہو۔
تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف بسا اوقات ایسے ایسے بیان جاری کرتے ہیں کہ ان کی قابلیت پر شک ہونے لگتا ہے۔ لاہور میں احتساب عدالت میں پیشی کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا نیب بہت سے معاملات پر اختیارات سے تجاوز کررہا ہے، مشرف نے مکروہ عزائم رکھ کر نیب بنایا تھا، اب ڈکٹیٹرکا بنایا ہوا قانون ختم ہونا چاہیے، فیصلے کا وقت ہے جمہوریت چلے گی یا ڈکٹیٹر کا قانون۔
تاریخ گواہ ہے کہ نواز شریف کے دور میں سیف الرحمن بحثیت چیئر مین نیب ملک کی منتخب وزیرِ اعظم شہید بی بی بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا سلوک کرتے رہے۔ یہ جملہ محض یادہانی کے لئے تحریر کیا گیا ہے ورنہ یہ اعتراف کر لینے میں کوئی امر مانع نہیں کہ دو غلطیاں مل کر ایک درست اقدام تصور نہیں کی جا سکتیں۔ نواز شریف نے یہ بھی کہا ان کی حکومت ترقیاتی کاموں میں اس قدر مگن رہی کہ وہ اس قانون کو ختم نہ کرا سکے۔ اس پچھتاوے پر یہ ہی کہا جا سکتا ہے۔۔ ہائے اس ذود پشیماں کا پشیماں ہونا۔۔۔