تحریر: پروفیسر حافظ محمد سعید
ترکی کے دارالحکومت استنبول میں 56 مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم ”اوآئی سی ”کے تیرہویںدوروزہ اجلاس کا موضوع وقت اور حالات کی مناسبت سے”اتحاد ویکجہتی برائے امن و انصاف ” رکھا گیا ۔اجلاس میں مسلم امہ کو درپیش تمام مسائل بشمول ۔۔۔۔۔۔۔دہشت گردی ،مغرب کے مسلم امہ کے خلاف نفرت انگیز رجحان وبیانات ،رسول اللہ ۖ کی ذات بابرکات کے توہین آمیز خاکے،فلسطین،مسئلہ کشمیر، شام ،لیبیا اوریمن میں جاری بحران کا خاتمہ ،آزادی اظہار کے نام پر اسلام اور مقدس مقامات کی تضحیک،مسلم دنیا میں فرقہ وارانہ تقسیم کا خاتمہ،تجارت معیشت،سائنس ،ٹیکنالوجی ،صحت اورتعلیم سمیت تمام شعبہ جات میں او آئی سی کے رکن ممالک کے درمیان تعاون اور مسلم امہ کا مستقبل محفوظ بنانے پر زور دیا گیا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ او آئی سی کے اجلاس میں دیگر مسائل کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر بھی گفتگو کی گئی اورکانفرنس کے جاری اعلامیہ میں تحریک آزادی کشمیر کی اصولی حمایت کرتے ہو ئے واضح کیا گیا کہ بھارتی جارحیت اور پرتشدد کاروائیاں قابل قبول نہیں ہیں۔ا وآئی سی کے سیکرٹری جنرل ایاد امین مدنی نے اپنی سالانہ رپورٹ میںجموں کشمیر کا خصوصی تذکرہ کرتے ہو ئے کہا کہ یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔ اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ لہذاضروری ہے کہ کشمیر یوں کو اقوام متحد ہ کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے۔ایاد امین مدنی کا کہنا تھا کہ او آئی سی کا رابطہ گروپ برائے جموں کشمیر مقبوضہ جموں کشمیر کی صورت حال پر خصوصی نظر رکھے ہو ئے ہے اوراو آئی سی کا انسانی حقوق کمیشن کا شعبہ۔۔۔۔۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال کو مانیٹر کر رہا ہے۔ایاد امین نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ اوآئی سی کا ایک خصوصی نمائندہ مقبوضہ جموں کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لینے وادی میں بھیجاجائے گا۔
اوآئی سی اس وقت مسلم امہ کا سب سے بڑا اتحاد ہے اس کا قیام سعودی عرب کی کوششوں سے عمل میں آیا اور اس کا صدر دفتر سعودی عرب کے دارالحکومت جدہ میں واقع ہے ۔یہ اتحاد اس وقت بناجب ستمبر 1969ء کو یہودی مسجد اقصی پر حملہ آور ہوئے ۔ اس کے بعدجب شاہ فیصل شہید سعودی عرب کے فرماں روا بنے اس وقت اسی پلیٹ فارم پر انہوں نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے پوری دنیا کے مسلمان حکمرانوں کو متحدو متفق کردیا با لآخر یہی اتحاد اسلا م دشمنوں کے گلے کا پھندابن گیا ۔
جہاں تک مسئلہ کشمیر اور اوآئی سی کا تعلق ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ حالیہ تحریک آزادی کشمیر کا آغاز 1988ء میں ہو ا تھا۔ اس سے ایک سال پہلے جنوری 1987ء میں کویت میں او آئی سی کا پانچواں اجلاس منعقد ہوا ۔ پاکستان سے جنرل ضیا ء الحق نے اجلاس میں شرکت کی انہوں نے جہاں افغانستان فلسطین اور دنیا کے دیگر خطوں کے مظلوم مسلمانوں کے حق اور آزادی کی بات کی وہاں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں بھی دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ” اہل فلسطین کی طرح کشمیر کے مسلمان بھی مظلوم ہیں جوبھارتی جارحیت کا شکار مسلم دنیا کی توجہ اور مدد کے طلب گار ہیں ۔فلسطین کی طرح اہل کشمیر کو بھی مسلم امہ کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان اہل کشمیر کی مدد و حمایت سے دستبردار ہو اہے اور نہ ہوگا۔اگر دنیا جنوبی ایشیا میں امن چاہتی ہے تو اس کے لئے پہلے مسئلہ کشمیر کا حل کیا جانا ضروری ہے۔”یہ پہلا موقع تھا جب کسی عالمی اسلامی فورم پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے آواز اٹھائی گئی۔ اس موقع پر بھارت کی بھر پور کوشش تھی کہ اسلامی سر براہی کا نفرنس کے مقررین و سامعین کے کان کشمیر کے نام سے ناآشنا رہیں لیکن بھارت کی کوئی کوشش بھی کار گر نہ ہو سکی۔
1988ء میں شروع ہونے والی تحریک آزادی کشمیر 90ء کی دہائی میں اس شان سے داخل ہوئی کہ یہ بھارتی حکمرانوںکے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس چکی تھی۔بھارتی نیتائوں اور جرنیلوں کے لئے ا سے اگلنا ممکن تھا اور نہ نگلنا ممکن تھااس لئے کہ دونوں صورتوں میں بھارت کی موت تھی۔اس موقع پر بھارت نے مفتی سعید اور فاروق عبداللہ جیسے غداروں اور ضمیر فروشوں کو بعض مسلمان ملکوں کے دورے پر بھیجا اور ان مہروں کے ذریعے مسلمان حکمرانواں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ کشمیری بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ان حالات میں اگست 1990ء میں قاہرہ میں او آئی سی کا اجلاس تھا۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو تنہا کرنے کا بھارت کا پروپیگنڈہ زوروں پر تھا تب پاکستان کے انتہائی قریبی دوست سعودی عرب کے اس وقت کے وزیر خارجہ سعود الفیصل کا نفرنس کے صدر تھے۔انہوں نے نہ صرف بھارت کی تما م کوششوں ،حربوں اور ہتھنکڈوں پر پانی پھیر دیا بلکہ بھر پور طریقے سے پاکستان کی حمایت کی، مقبوضہ جموں کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کا پردہ چاک کیا ، مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر زور دیااور کشمیری شہدا کی قربانیوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ اس وقت سے اب تک او آئی سی نے ہمیشہ مظلوم اہل کشمیر کی بھر پور مددوحمایت کی ہے تاہم یہ حمایت اعلامیوں اور قراردادوں کی بجائے عملی اقدامات کی متقاضی ہے۔
مسلمان حکمرانوں ،صدور اور بالخصوص عرب ممالک کے حکمرانوں سے ہم کہنا چائیں گے کہ بھارت نے کشمیری مسلمانوں پر جو جنگ مسلط کررکھی ہے یہ زمین پر قبضے کی نہیں بلکہ اسلام دشمنی اور عالم اسلام پر قبضہ کی جنگ ہے ۔بھارتی استعمار اور استبداد کی نظریں صرف مقبوضہ جموں کشمیر پر ہی نہیں بلکہ پاکستان سمیت ارد گرد کے تمام اسلامی ممالک پر لگی ہوئی ہیں۔ اس ضمن میںبھارت کی جدید خارجہ پالیسی کے معمار ڈاکٹر ایس آر پٹیل اپنی کتابForeign policy of Indiaمیں لکھتے ہیں ”بھارت کے دفاع کے لئے ضروری ہے کہ سنگاپور اور نہر سویز دونوں ہمارے کنٹرول میں ہوں۔”کئی ایک خود ساختہ بھارتی مورخین کے مطابق تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی گزراہے جب دنیا کے نقشے پر” عظیم ترہندوستان”کے نام سے ایک ملک موجود تھاجس کی سرحدیں مشرق میں انڈونیشیا،ملائشیا،سنگاپوراور مغرب میں دریائے نیل تک پھیلی ہوئی تھیں۔یہاں تک کہ جزیرہ نمائے عرب بھی اس میں شامل تھا۔یہ خود ساختہ مورخین ماضی کے اسی گم گشتہ بھارت کی بازیابی کے خواہشمند ہیں۔
بات یہاں تک ہی محدود نہیں بعض ہندو فلسفی اس سے بھی آگے کی سوچتے اوردریدہ دہنی کرتے ہوئے کہتے ہیں نعوذبااللہ خانہ کعبہ بھی پہلے رام کا مندر تھا جس پرمسلمانوں کے پیغمبر نے قبضہ کر لیا وہ کہتے ہیں ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ خانہ کعبہ پر دوبارہ ہمارا قبضہ ہو جائے تا کہ اسے مندر میں تبدیل کر کے رام کا بت نصب کیا جاسکے۔چنانچہ اس سلسلہ میں مشہور بھارتی فلسفی اور مفکرپی این اوک اپنی کتاب Some blunders of Indian historyمیں ”کعبہ دراصل ہندئووں کا مندر ہے”کے عنوان سے لکھتا ہے”اس امر کی تاریخ میں کئی شہادتیں ملتی ہیں کہ کسی زمانے میں ہندو مہاراجہ بکرماجیت کی حکومت کی حدود پورے جزیرہ نمائے عرب تک پھیلی ہوئی تھیں۔بہت سی شہادتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مہاراجہ بکرماجیت نے 58ق م عرب کے شہر مکہ میں رام کا مندر تعمیر کیا تھا۔”
بابری مسجد کے بارے میں بھی ہندئووں کا دعوی تھا کہ یہ رام کی جائے پیدائش تھی پھر دنیا نے دیکھا کہ 6دسمبر1992ء کو یہ مسجد شہید کر دی گئی۔ ہندئوو ں کایہی دعویٰ خانہ کعبہ کے بارے میں بھی ہے۔ اس پس منظر میںپی این اوک کی ہرزہ سرائی سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بھارتی رہنمائوں کی سوچ مشرق وسطی میں صرف معیشت وتجارت کی بالادستی تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک ایسی وسیع ترمذہبی ہندو ریاست کے خواب دیکھ رہے ہیں کہ جس کی بنیاد رام راج پر ہو اور سرحدیں افغانستان سے لے کر حجاز مقدس تک پھیلی ہوں۔اس اعتبار سے دیکھا جائے توکشمیری مجاہدین اپنے وطن کی آزادی کی ہی نہیں بلکہ پاکستان سمیت عالم عرب اور حجاز مقدس کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔لہذاپاکستان اور پوری ملت اسلامیہ پرلازم ہے کہ وہ کشمیری قوم کی مدد کرے۔پاکستان کو چا ہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر مضبوط،دوٹوک اور اصولی موقف اختیار کرے ۔بھارت کے ساتھ تعلقات اورتجارت میں کشمیر کو سر فہرست رکھے ۔بھارتی مورخین اور پایسی ساز افراد کے عالم عرب ،حجاز مقدس اور بالخصوص حرمین کے بارے میں ناپاک عزائم و ارادوں کے بارے میںعرب میڈیا ،علماء شیوخ،حرمین کے ائمہ، عرب سفارت خانوں، حکمرانوں ،اسلامی سربراہی کانفرنس اوراسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس کے ذمہ داران کو آگاہ کرے۔ان کو بتایا جائے کہ یہود اورہنود ہم قافیہ ہی نہیں ہم مزاج،ہم شناس اور مسلم دشمنی میں ایک جیسے استعماری عزائم و ارادے رکھتے ہیں۔اسرائیل کی طرح بھارت بھی اسلام، عالم اسلام ،قرآن ،محمد ۖ کی ذات گرامی کا دشمن اور حرمین پر قبضہ کے خواب دیکھ رہا ہے۔
بلاشبہ اس وقت امت مسلمہ مشکل حالات سے دوچار ہے۔نائن الیون کے نام پر امریکہ نے پہلے افغانستان اور عراق کو تباہ کیا اب15سال بعد امریکہ سعودی عرب کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دے کر ایک بار پھر تباہی اور بربادی مسلط کرنا چاہتا ہے۔ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلم ممالک متحد ہوں ،باہم تجارت کو فروغ دیں،ڈالر اور پونڈکی غلامی سے نکل کراسلامی بینک بنائیںاپنی کرنسی تشکیل دیں،دفاع اور معیشت کو مضبوط کریں،قران مجید سے رہنمائی لیں،ان شاء اللہ ان کے مسائل حل ہو جائیں گے،غلامی کے بند ھن ٹوٹ جائیں گے،اندھیرے چھٹ جائیں گے اور پھر عزت وکامیابی ان کے قدم چومے گی۔
تحریر: پروفیسر حافظ محمد سعید