مسئلہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ 57 مسلم ملکوں کی قومی ترقی کے حوالے سے ترجیحات کے تعین کا ہے۔ آج کی دنیا تصورات ، مفروضات کی دنیا نہیں ہے بلکہ حقائق تحقیق سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے اب چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا کو دیکھنے اور ہلال عید پر جھگڑنے کا زمانہ نہیں ہے بلکہ چاند پر جانے اور چاند کی سرزمین کو بہ چشم خود دیکھنے کی تیاری کرنے کا زمانہ ہے، لیکن اس حوالے سے مسلم دنیا پر نظر ڈالیں تو ایک بھیانک سناٹے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے سناٹے میں ایک رسمی ہی سہی قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم ممالک جاگ تو نہیں رہے ہیںبلکہ جاگنے کے لیے آنکھیں مل رہے ہیں۔ اس دو روزہ کانفرنس میں 22 مسلم ملکوں کے سربراہوں سمیت 57 مسلم ملکوں کے وفود نے شرکت کی۔ کانفرنس میں تعلیم، تحقیق، صنعتی، زرعی، صحت، خلا اور فلکیات کے شعبوں میں ترقی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ مسلم معاشروں کی ترقی پر بھی زور دیا گیا۔
اس کانفرنس کا عنوان ’’سائنس، ٹیکنالوجی اور تنوع پسندی کا ایجنڈا دو ہزار چھبیس‘‘ تھا۔ کانفرنس میں اس بات پر زیادہ زور دیا گیا کہ دنیا کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ساٹھ کروڑ سے زیادہ ہے لیکن ان کی آواز سنی نہیں جاتی اور مسلم ملکوں کے بے بہا قدرتی وسائل مسلم ملکوں کی ترقی میں استعمال ہونے کے بجائے ’’غیروں‘‘ کے زیادہ کام آرہے ہیں۔ مسلم ملکوں کے حکمرانوں کی اپنے ملک کے عوام کی فلاح وبہبود، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں عدم دلچسپی کی وجہ سے اکثر مسلم ملک معاشرتی تنزلی، غربت، انتہا پسندی اور احساس محرومی کا شکار ہیں۔ تعلیم، تحقیق، اچھی حکمرانی، عدل و انصاف ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے۔ اس پر توجہ دینا ہر مسلم ملک کا فرض ہے۔
بلاشبہ 57 مسلم ملکوں میں رہنے والے 1 ارب 60 کروڑ عوام جو دنیا کی آبادی کا لگ بھگ ایک چوتھائی حصہ بنتے ہیں دنیا میں ان کی آواز سنی نہیں جاتی۔ یہ شکایت بجا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چار چھ کروڑ آبادی والے ملکوں کی آواز سنی بھی جاتی ہے اور اس پر توجہ بھی دی جاتی ہے۔ انڈونیشیا،بنگلہ دیش اور پاکستان بڑی آبادیوں والے ایسے ملک ہیں جن کے مقابلے میں آبادی کے حوالے سے بہت چھوٹے ملک ترقی کی معراج پر کھڑے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں حکمرانوں کو قومی ترقی سے دلچسپی بھی ہے اور عوام کی طرف سے جواب طلبی کا خوف بھی۔ اس حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان ملکوں کے عوام کو اس حقیقت کا پورا پورا ادراک ہے کہ کوئی ملک جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں حکمران طبقہ اقتدار کے لالچ میں مبتلا نہیں۔ برسر اقتدار پارٹی اپنی اقتداری مدت پوری کرنے کے بعد ہنسی خوشی اقتدار سے دست بردار ہوجاتی ہے ان حکمرانوں میں زندگی بھر اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش نہیں ہوتی۔
ہمارے مسلم ملکوں میں معاشرتی ڈھانچہ ابھی تک قبائلی اور جاگیرداری پیٹرن پر ایستادہ ہے، جاگیرداری نظام میں شخصیت پرستی کا کلچر بہت مضبوط ہے اور یہی کلچر ہماری سیاست میں در آیا ہے یہاں سیاست میں غریب طبقات کا داخلہ بند ہے البتہ عوام ہماری سیاست میں ہاری اورکسان بن کر رہ سکتے ہیں۔ اس کلچر کی وجہ سیاست اور اقتدار اشرافیہ کے باپ کی جاگیر بنے ہوئے ہیں دیہی علاقوں میں تعلیم شجر ممنوعہ ہے، تعلیمی ادارے وڈیروں کے مال مویشیوں کے گھر بنے ہوئے ہیں اس پر ستم یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے نام پر مذہبی انتہا پسند تعلیمی اداروں کو بموں اور بارود سے اڑا رہے ہیں۔ اس قسم کی سنگین صورتحال میں سائنس، ٹیکنالوجی، تحقیق اور ایجاد کیونکر ممکن ہوسکتے ہیں؟
مغربی ملکوں میںبلاشبہ مذہبی آزادی ہے لیکن ریاست کو سیکولر رکھا گیا ہے۔ ان ملکوں میں ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کا حق ہے اور حکومت مذہبی آزادی کا بلاامتیاز تحفظ بھی کرتی ہے لیکن ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ یہ کلچر صرف ترقی یافتہ ملکوں ہی میں نہیں بلکہ ترقی پذیر ملکوں میں بھی ہے۔ بھارت سمیت جنوبی ایشیا میں ہر شہری کو مذہبی آزادی ہے لیکن ریاست اس حوالے سے مکمل غیر جانبدار ہے۔ پاکستان اسرائیل کے بعد دوسرا ایسا ملک ہے جہاں ریاست کو نہ صرف مذہب سے نتھی کردیا گیا ہے بلکہ ملک کا سرکاری مذہب ہے۔1949 کی قرارداد مقاصد ہوسکتا ہے نیک نیتی سے پیش کی گئی ہو لیکن اس قرارداد کی وجہ سے پاکستانی اقلیتوں کو سخت تحفظات ہیں اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں بھی یہ قرارداد بالواسطہ یا بلاواسطہ رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں جو نصاب نافذ کیا گیا ہے اس میں بھی نظریاتی علوم سرفہرست ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور عقائد کے درمیان جو تضاد ہے وہ ہمارے ملک میں جدید علوم کے راستے میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے کی وجہ سے مذہبی عناصر ملک اور معاشرے کی بالادست قوت بنے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقات سخت ذہنی کشمکش کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں اور مذہبی قیادت پاکستان کے ساتھ مذہبی اضافت لگانے پر بضد ہے اور یہ محترمین اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ آج کسی ملک کی ترقی کے لیے جدید علوم سائنس و ٹیکنالوجی کس قدر ضروری ہیں۔
کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کا سیکولر ہونا ضروری ہے لیکن ہم اس اہم ضرورت کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے برخلاف ہم نے ہزاروں مدرسوں کا ایک منظم اور ملک بھر میں پھیلا ہوا نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے ۔ ان مدرسوں میں دینی تعلیم دی جاتی ہے اور جدید علوم کا داخلہ ان مدرسوں میں سخت ممنوع ہے۔ ہمارے ملک کے مدرسوں میں 32 لاکھ طلبا زیر تعلیم ہیں جو جدید علوم سے نابلد ہیں۔ 32 لاکھ دینی تعلیم سے آراستہ ہیں فورس کس قدر طاقتور ہوسکتی ہے اس کا اندازہ ممکن نہیں؟
ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے لیکن اپنے پڑوسی ملک کا نظریاتی پہلو دیکھ کر اب بھارت کو بھی مذہبی ریاست بنانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ ہندوتوا بھارت کی حکمران پارٹی بی جے پی کے منشور کا پہلا آئیٹم بن گیا ہے اسی حماقت کی وجہ بھارتی معاشرہ مذہب پرستی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جو ایک خطرناک علامت ہے۔ بھارت میں 22-24 کروڑ مسلمان رہتے ہیں ان کی زندگی اور مستقبل کے لیے سیکولر ازم ضروری ہے، لیکن خود بھارت کے مذہبی انتہا پسند ہندوتوا کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ صورتحال جنوبی ایشیا کے لیے بہت خطرناک ہے۔
قازقستان میں ہونے والی57 مسلم ملکوں کی کانفرنس بلاشبہ اس لیے قابل تعریف ہے کہ اس کا موضوع ہی سائنس اور ٹیکنالوجی تھا لیکن اس کانفرنس سے مسلم ملکوں میں جدید علوم کا احیا ممکن نہیں بلکہ او آئی سی کو دیکھنا پڑے گا کہ وہ کون سے مسلم ملک ہیں جو سائنس و ٹیکنالوجی کی راہ میں روڑا بن سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ او آئی سی کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کتنے ملکوں میں جمہوریت ہے اور کہاں کہاں بادشاہتیں ہیں کیونکہ بادشاہتوں کی موجودگی میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ایک سہانے خواب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔