یقین نہیں آرہا سیاستدان عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے اس حد تک بھی جاسکتے ہیں، معروف ریسرچ سکالراورکالم نگار کی تحقیق نے تیل اور سونا نکلنے کے فراڈ کی دھجیاں اڑا دیں!
کچھ عرصہ قبل عمران خان کی طرح شہباز شریف نے بھی ایک ڈرامہ کیا تھا ۔ معروف کالم نگار حسن نثار نے ماہرین ارضیات جو کہ ان میں سے ایک پراجیکٹ پر کام کر چکے تھے سے ملاقات میں ان باتوں کا ذکر کیا تو انھوں نے کیا حیرت انگیز انکشافات کرڈالے جانئے!
حال یہ ہے کہ سمندر سے تیل نکلنے کی خوشخبریاں سناتے ہوئے اتنا بھی نہیں جانتے کہ اگر ایسا ہو بھی گیا تو عوام تک اس کے ثمرات پہنچنے میں کتنے سال درکار ہوں گے۔محاورہ ہے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنا یا لگانا لیکن اس بار مسئلہ اک اور بھی ہے کہ مختلف و متضاد سمتوں میں اتنے ٹرک روانہ کردئیے گئے ہیں کہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کس ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگے اور کس ٹرک کے آگے لیٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شانت ہوجائے۔ چند سال پہلے شہباز شریف نے بھی رجوعہ (چنیوٹ) میں اک ایسی ہی نوٹنکی چلائی تھی۔ ’’اراضیات‘‘ کی میں اے بی سی سے بھی واقف نہیں لیکن میری چھٹی حس نے مجھے بتایا کہ یہ آدمی ڈرامہ کررہا ہے۔ میں نے فوراًاپنے جیالوجسٹ دوستوں سے رابطہ کیا جن میں سے کچھ سینئر پوزیشنز پر واپڈا میں بھی رہ چکے تھے اور ان میں سے ایک رجوعہ پراجیکٹ سے بھی وابستہ رہ چکا تھا۔ میٹنگ میرے ہی گھر پر ہوئی۔ دوستوں نے ایسی بریفنگ دی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ سیاسی حکمران عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اس حد تک بھی جاسکتے ہیں لیکن دوست اتنے قابل اور قابل بھروسہ تھے جن کے ساتھ میں نے چار سال دن رات ہاسٹل میں بسر کئے تھے۔ میں نے دو یا شاید تین قسطوں میں اس فراڈ کی دھجیاں اڑادیں اور یہ بھی کہا کہ کچھ غلط ہے تو یہی کالم وضاحت کے لئے حاضر ہے۔ ’’شہباز سپیڈ‘‘ کو سانپ سونگھ گیا کہ جھوٹ کے پائوں کیا، ٹانگیں بھی نہیں ہوتیں۔آج رجوعہ کہاں ہے؟لیکن معاف کیجئے کہ آج بھی جا بجا ’’ رجوعہ‘‘ ہے لیکن کبھی کبھی ’’دی ٹریپ‘‘ کے ہیرو کی طرح شکاری خود اپنے پھیلائے اور لگائے ہوئے پھندوں میں سی کسی ایک میں پھنس جاتا ہے، سو خاطر جمع رکھیئے۔ میں تو پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ اگست کے آگے پیچھے سورج سوا نیزے پر ہوگا تو نہ بجلی کی ضرورت ہوگی نہ گیس کی ضرورت رہے گی۔